محمد علی جوہر: تحریک خلافت کے سالار

وقارِ خونِ شہیدانِ کربلا کی قسم

یزید مورچہ جیتا ہے، جنگ ہارا ہے

محمد علی جوہر 10 دسمبر  1878 میں رام پور میں پیدا ہوئے۔ جوہر تخلص تھا جب کہ رئیس الاحرار آپ کا لقب تھا۔  دو سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ والدہ مذہبی خصوصیات کا مرقع تھیں، اس لیے بچپن ہی سے تعلیمات اسلامی سے گہرا شغف تھا۔

محمد علی جوہر نے ابتدائی تعلیم رام پور اور بریلی میں پائی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ بی اے کا امتحان اس شاندار کامیابی سے پاس کیا کہ الہ آباد یونیورسٹی میں اول آئے۔ آئی سی ایس کی تکمیل آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی۔  علی گڑھ اور لنکن کالج، آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی۔ ریاست ہائے بڑودہ اور رام پور میں ملازم رہے ۔ 1914میں برطانوی پالیسی کے خلاف لکھنے پر آپ کو نظر بند کیا گیا۔1919میں رہائی کے بعد تحریک خلافت میں حصہ لیا۔ گاندھی کی معیت میں ملک کی آزادی وتحریک خلافت کی تنظیم وتبلیغ کی غرض سے تحریک موالات میں حصہ لیا جس کی وجہ سے دو بار جیل جانا پڑا۔ 1923  میں رہا ہوئے اور اسی سال کانگریس کے صدر بنائے گئے۔ بعض ہندوؤں کی ذہنیت کی وجہ سے مولانا  بالآخر کانگریس سے الگ ہوگئے۔

شاعری میں داغ کے شاگرد تھے۔ان کا مجموعۂ کلام ،  دیوان ِجوہر شائع ہو چکا ہے۔ محمد علی جوہرؔ انگریزی زبان کے صاحبِ طرز انشا پرداز تھے۔ ہندوستان کی آزادی کے بہت بڑے علم بردار اور مسلمانوں کے محبوب لیڈر تھے۔

ملازمت چھوڑنے کے بعد کلکتہ جا کر انگریزی اخبار" کامریڈ" جاری کیا۔ مولانا کی لاجواب انشاء پردازی اور ذہانت طبع کی بدولت نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ہند بھی کامریڈ بڑے شوق سے پڑھا جاتا جاتا تھا۔

انگریزی زبان پر عبور کے علاوہ مولانا کی اردو دانی بھی مُسَلّم تھی۔ انھوں نے دہلی سے  ایک اردو روزنامہ "ہمدرد" بھی جاری کیا جو بے باکی اور بے خوفی کے ساتھ اظہار خیال کا کامیاب نمونہ تھا۔

جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینے کے جرم میں مولانا کی زندگی کا کافی حصہ قید و بند میں بسر ہوا۔ تحریک عدم تعاون کی پاداش میں کئی سال جیل میں رہے۔ 1919ء کی تحریک خلافت کے بانی آپ ہی تھے جامعہ ملیہ دہلی آپ ہی کی کوششوں سے قائم ہوا۔ آپ نے مغرب سے امڈے آنے والے بے حیائی ، بے راہ روی   اور   اخلاق باختگی  کے طوفانِ بلا خیز کے خلاف زبر دست جہاد کیا اور اس ضمن میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

کلام

ساری دنیا یہ سمجھتی ہے کہ سودائی ہے

اب مرا ہوش میں آنا تری رسوائی ہے

نہ نماز آتی ہے مجھ کو نہ وضو آتا ہے

سجدہ کر لیتا ہوں جب سامنے تو آتا ہے

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے

یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے

وقارِ خونِ شہیدانِ کربلا کی قسم

یزید مورچہ جیتا ہے جنگ ہارا ہے

شکوہ صیاد کا بے جا ہے قفس میں ،بلبل

یاں تجھے آپ ترا طرزِ فغاں لایا ہے

ہر سینہ آہ ہے ترے پیکاں کا منتظر

ہو انتخاب اے نگہ یار دیکھ کر

تجھ سے کیا صبح تلک ساتھ نبھے گا اے عمر

شب فرقت کی جو گھڑیوں کا گزرنا ہے یہی

دل کو ہلاک جلوۂ جاناں بنائیے

اس بت کدے کو کعبۂ ایماں بنائیے

طوفان بن کے اٹھیے جہان خراب میں

ہستی کو اک شرارۂ رقصاں بنائیے

دوڑائیے وہ روح کہ ہر ذرہ جاگ اٹھے

اجڑے ہوئے وطن کو گلستاں بنائیے

پھر دیجئے نگاہ کو پیغام جستجو

منزل سے کیوں نظر کو گریزاں بنائیے

آخر تو ختم ہوں گی کہیں قید کی حدیں

یوسفؑ کو آپ رونقِ زنداں بنائیے

پھر اپنے دل میں کیجئے پیدا کوئی تڑپ

پھر مشکل حیات کو آساں بنائیے

جوہرؔ اسیریوں کی کوئی انتہا بھی ہے

آزاد اک نظامِ پریشاں بنائیے

یہ مانا ہم نے جوہرؔ شہر چھوڑا پر کہاں جائیں

وہ تیرے دم سے تھا آباد اب ویرانہ خالی ہے

دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد

ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد

جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو

باقی ہے موت ہی دل بے مدعا کے بعد

تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے

میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد

اک شہر ِآرزو پہ بھی ہونا پڑا خجل

ھل من مزید کہتی ہے رحمت دعا کے بعد

لذت ہنوز مائدۂ عشق میں نہیں

آتا ہے لطفِ جرمِ تمنا، سزا کے بعد

قتلِ حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

غیروں پہ لطف ہم سے الگ حیف ہے اگر

یہ بے حجابیاں بھی ہوں عذرِ حیا کے بعد

ممکن ہے نالہ جبر سے رک بھی سکے اگر

ہم پر تو ہے وفا کا تقاضا جفا کے بعد

ہے کس کے بل پہ حضرت جوہرؔ یہ روکشی

ڈھونڈیں گے آپ کس کا سہارا خدا کے بعد

آپ جنوری 1931ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے انگلستان گئے۔ یہاں آپ نے آزادیِ  وطن کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم انگریز میرے ملک کو آزاد نہ کرو گے تو میں واپس نہیں جاؤں گا اور تمہیں میری قبر بھی یہیں بنانا ہوگی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد 4 جنوری کو آپ نے  لندن  میں انتقال فرمایا۔ تدفین کی غرض سے نعش بیت المقدس لے جائی گئی۔ آج بھی یہ  مردِ حُر، امانتاً بیت المقدس  میں آسودۂ خاک ہے۔