سائبر کرائمز اور ایف آئی اے: بہتری کے لیے چند تجاویز

حالیہ  رپورٹس کے مطابق، وفاقی تحقیقاتی  ادارے (ایف آئی اے) کو سال 2021 میں سائبر کرائم سے متعلق کل 102,356 شکایات موصول ہوئیں۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے اور شہریوں کی سائبر کرائم رپورٹ کرنے کے رجحان میں اضافے کی نشان دہی کرتی ہے۔ جہاں یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد سائبر کرائمز   کو رپورٹ کر رہی ہے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ   ایف آئی اے کی کارکردگی کا  جائزہ  لیا جائے،   اس  کے نظام میں موجود  خامیوں  کو دور کیا جائے، اور اس کی  کارکردگی کو بہتر بنایا جائے۔ کارکردگی کی بہتری    ذمہ داریوں کی ادائیگی  کی صلاحیت  میں بہتری کے ساتھ ساتھ پالیسی سازی کی سطح پر بھی  بہتر ہونی  چاہیے۔

 ایف آئی اے کے مطابق  موصول ہونے والی  102,356   میں سے 80,641  شکایات تصدیق کے مرحلے کو پہنچ  پائیں جبکہ  ان میں سے صرف 15,932   ہی اس معیار کو پہنچیں جس سے تحقیقات شروع  ہو سکیں۔ پریونشن الیکٹرونک کرائم ایکٹ کے تحت 2021 میں کل 1,202 مقدمات درج کیے گئے، اور ایف آئی اے نے کل 1,300 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا۔

 بہرحال، یہ اعداد و شمار تو اپنی جگہ ہیں ہی، لیکن یہ تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ FIA کی کارکردگی سے زیادہ شہریوں کے لیے کیسی  رہی۔

پہلی بات تو یہ کہ ایف آئی اے  وسائل کی کمی کا شکار ہے۔ پیکا کے مطابق سائبر کرائم کے مقدمات ایف آئی اے کے پاس درج کیے جانے    چاہئیں ، پولیس کے پاس نہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایف آئی اے صرف پاکستان کے بڑے شہروں میں موجود ہے۔ بڑے شہروں سے باہر زیادہ تر لوگوں کو باقاعدہ شکایت درج کروانے کے لیے سینکڑوں کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ سائبر کرائم کورٹس کا بھی یہی حال ہے۔ اس کے لیے بھی لوگوں کو   خاصا سفر کرنا پڑتا ہے، بہت سے  کیسز میں تو حالات یہ ہوتے ہیں کہ  شکایت درج  ہونے کے بعد ہر ماہ سماعت کے لیے جانا پڑتا ہے  تاکہ مقدمات کی   شنوائی ہو اور شکایت پر پیش رفت ہو۔ رپورٹس کے مطابق ایف آئی اے ہر ضلع میں دفاتر قائم  کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اگر   یہ دفاتر موجودہ تھانوں میں ہی قائم کر دیے جائیں تو وسائل کی بھی بچت ہوگی اور قیام بھی تیزی سے عمل میں آ جائے گا۔

دوسرا، ایف آئی اے کا عملہ اکثر شکایات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ درج کی گئی شکایات کے مقابلے میں درج مقدمات کی انتہائی کم تعداد سے پتہ چلتا ہے کہ شہری ایف آئی اے  اور عدالتوں کے ذریعے انصاف کے حصول کے عمل کو بہت مشکل سمجھتے ہیں۔ یہ خاص طور پر خواتین ، اقلیتوں  اور ان لوگوں کے  حوالے سے سچ ہے، جو  با اثر روابط نہیں رکھتے۔

تیسرا، ایف آئی اے کے بارے میں ایک عام تاثر ہے کہ یہ حکومت کے ہاتھ میں اپنے ناقدین کو خاموش کرنے کا  ایک آلہ ہے۔  ایف آئی اے کو ضرور ایسے اقدامات کرنے  چاہییں جن سے  یہ تاثر ختم  ہو سکے۔ سیاست دانوں، صحافیوں اور کارکنوں کو آن  لائن بات کرنے پر سمن بھیجنا انتہائی تشویشناک ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بارہا اس کا نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام کو اس سلسلے میں طلب کیا ہے۔ پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ اکثر اوقات لوگوں  کو آن  لائن بات کرنے پر  ایسے سمن بھیجے جاتے ہیں جن میں  کچھ ایسے الفاظ درج ہوتے ہیں : " آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔   جب ایف آئی اے اس قسم کے سمن  دے کر گرفتاریاں کرتی ہے تو ایف آئی اے  اپنے اقدام کے ٹھوس شواہد فراہم نہیں کر پاتی۔  بعد میں عدالت کے حکم پر انکوائریاں منسوخ  کرنی پڑ جاتی ہیں۔ اس سے وسائل، وقت اور توانائی سب کا ضیاع  ہوتا ہے۔ PECA کے سیکشن 20 کا غلط استعمال  بھی ایف آئی اے میں بے دریغ ہوتا ہے۔ یہ سیکشن ہتک عزت کو جرم قرار دیتا ہے۔  اکثر دیکھا گیا ہے کہ اس کا استعمال ظلم و زیادتی کے خلاف بولنے والوں پر ہی ہو رہا ہوتا ہے۔

چوتھا، ایف آئی اے کے تفتیشی افسران کے کام اور ان کا عدالتوں کے ساتھ تعاون  ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بہت سے معاملات میں، وہ عدالت میں پیش نہیں ہوتے۔  اکثر ان کی طرف سے سننے کو ملتا ہے کہ اہم مقدمات  کے شواہد کی فائلیں ضائع ہوگئیں یا صرف اس وقت پیش ہوئیں جب ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا۔ اس طرح کی بے جا تاخیر ایف آئی اے  کی نیت اور اہلیت پر سوالیہ نشان لگا دیتی ہے ۔ اس رویے کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ فرانزک لیبارٹریز کا بھی یہی حال ہے  جو پورے ملک میں صرف دو موجود ہیں۔  ان سب خامیوں پر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ  مقدمات میں تیزی  سے کارروائی  کی جا سکے۔

پانچویں، یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ایف ائی اے شکایت کرتی ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں تحقیقات میں تعاون نہیں کرتیں۔ اس کی بڑی وجہ بین الاقوامی  فورمز پر پاکستانی  حکومت کا پالیسی سازی میں سست روی  ہے۔ انٹرنیٹ بین الاقوامی تعاون کا مظہر ہے، اس لیے اس سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی بین الاقوامی شراکت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا امریکہ کے ساتھ باہمی قانونی معاونت کا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ یہ کمپنیاں زیادہ تر  امریکہ ہی میں قائم ہیں اور اس کے قوانین پر ہی عمل  درامت کرتی ہیں۔ اگر پالیسی کی سطح پر، حکومت پاکستان   کسی باہمی قانونی معاونت کے معاہدے کی کوشش کرے تو ، سوشل میڈیا کمپنیوں سے  متعلق مقدمات کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر قانونی مسائل    حل  ہو سکتے ہیں۔

اسی طرح دیکھا جائے تو پاکستان نے ابھی تک سائبر کرائم کے عالمی معاہدے   پر بھی دستخط نہیں کیے ہیں۔  اس عالمی معاہدے کو  سائبر کرائم کے حوالے سے خاصا موثر سمجھا جاتا ہے۔ مزید پاکستان   ڈیجٹل کمپنیوں  پر ٹیکس عائد کرنے کی  عالمی کاوشوں میں بھی   زیادہ شرکت نہیں کرتا، جس سے اسے خاصا مالی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اگر پاکستان اپنے ڈیجٹل مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے تو اسے تیزی سے ان پر کام کرنا ہوگا۔  خاص طور پر عالمی پالیسی سازی کی سطح پر۔ ایف آئی اے کی صلاحیت میں بہتری کے لیے ان سب مسائل پر کام کرنا ہوگا۔ تاکہ مستقبل میں سائبر کرائم کے حوالے سے پاکستان میں تیزی سے کام کیا جا سکے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جا سکے۔ 

ترجمہ: فرقان احمد

متعلقہ عنوانات