پاکستان کے لیےمعاشی عدم استحکام ، سیاسی عدم اعتماد سے بڑا چیلنج بن چکا ہے

پی ٹی آئی کی حکومت اس وقت  اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کی تیاری کررہی ہے جس نے سیاسی میدان میں کافی ہلچل مچا رکھی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں دعوے کررہے ہیں کہ ان کے پاس عدم اعتماد کو ناکام یا کامیاب بنانےکے لیے مطلوبہ افراد موجود ہیں۔ عوام کی نظریں بھی مکمل طور پر ملک میں جاری اس سیاسی تماشے پر لگی ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک کو سیاسی سے زیادہ اس وقت اقتصادی بحران کا سامنا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت ان معاملات پر بات کرنے کو تیار نظر آتی ہے اور نہ ہی اپوزیشن نے اب تک ملک کی روز بروز دگرگوں ہوتی ہوئی معاشی صورت حال پر کوئی آواز بلند کی ہے۔ معاشی ماہرین اور ادارے خطرے کی گھنٹیا ں بجارہے ہیں اور خبردار کررہے ہیں کہ معاشی حالات کو بہتر کرنے کا چیلنج موجودہ حکومت کے رہنے یا نہ رہنے سے مشروط نہیں ہے بلکہ اب یہ ایک مستقل چیلنج ہے جو آنے والی کسی بھی حکومت کے لیے ایک بڑے خطرے کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔

 معاشی صورت حال کی ایک عکاسی روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر ہے ۔ رواں  ہفتے کی صورت حال یہ ہے کہ روپے کی قدر  ڈالر کے مقابلے میں 180.57 کی سطح شروع ہوئی اور  181.78 روپے پر ختم ہوئی۔ یہ ملکی تاریخ میں روپے کی سب سے زیادہ گراوٹ ہے۔  ملک میں جاری سیاسی بحران اور آئی ایم ایف کے ساتھ مستقبل کے  مالیاتی پروگرام پر بات چیت چونکہ غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے لہٰذا ماہرین کہہ رہے ہیں کہ روپے کی قدر آنے والے کئی دنوں بلکہ مہینوں تک بہتر ہونے کے امکانات نہیں۔ روپے کی گرتی ہوئی قدر کا نتیجہ اندرونی و بیرونی قرضوں کی صورت میں بھی نکلتا ہے جبکہ دوسری طرف درآمدی بل اتنا بڑھ جاتا ہے کہ اس کےمقابلے میں ملک کی برآمدات کی حیثیت کچھ نہیں رہ جاتی۔

ملکی معیشت چونکہ پہلے ہی قرضوں پر چل رہی ہے لہٰذا آئی ایم ایف کی قسط اس کے لیے گلوکوز کا انجکشن ثابت ہوتی ہے جس سے وقتی طور پر معیشت کے جاں بہ لب مریض کی نیم مردہ رگوں میں کچھ جان دوڑنے لگتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف یا دوسرے مالیاتی اداروں کی غلامی ملک کومعاشی و سیاسی ہر لحاظ سے بربادی کی دلدل میں دھکیل رہی ہے۔ اب اس وقت آئی ایم ایف کا مطالبہ  ہے کہ حکومت کی طرف سے  صنعتی شعبے کے لیے ریلیف پیکج اور ایمنسٹی اسکیم کو ختم کیا جائے۔ یعنی ان کے نزدیک کسی بھی شعبے کو دیا جانے والا کوئی بھی ریلیف قابل قبول نہیں ہے۔ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی آئے روز بڑھتی قیمتوں اور ان میں آئی ایم ایف کے رول سے توہر باشعور پاکستانی  پہلے ہی واقف ہے۔

درآمدی بل  کے بڑھنے سے ایک بڑی تشویش  اور پیدا ہوتی ہے ۔  اس سے ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ   موجودہ حالات متقاضی تو اس بات کے ہیں کہ درآمدات کے حوالے سے ایک نسبتاً سخت پالیسی بنائی جائے او روہی اشیا درآمد کی جائیں جن کے بغیر ملک کا گزارہ نہیں لیکن صورت حال یہ ہے کہ  ہر قسم کی درآمدات بغیر کسی روک ٹوک کے آ رہی ہیں، جس سے بھاری زرمبادلہ ضائع ہو رہا ہے ۔

بات زر مبادلہ کی ہوئی  تو اس حوالے سے بھی مایوس کن صورت حال ہے۔ اس وقت ملکی زرمبادلہ کے ذخائر رواں مالی سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) نے کہا  ہے کہ 18 مارچ کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران زرمبادلہ کے ذخائر میں 844 ملین ڈالر کی کمی واقع ہوئی۔ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کم ہو کر کر 21.439 بلین ڈالر رہ گئے جو کہ پچھلے سال مارچ کے وسط سے کم ترین ہے۔ بین الاقوامی بینچ مارک کے مطابق، کسی ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر اس کی تین ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں۔ اس وقت پاکستان کے ذخائر شاید 2 ماہ کی درآمدات  کے لیے بھی ناکافی ہیں۔

قارئین کرام! یہ وہ صورت حال ہے جو اس وقت ملک کے کارپردازان کی انتہائی توجہ کی متقاضی ہے  لیکن حیرت ہے کہ سیاسی میدان میں چھلانگیں لگانے والی  ہماری حکومت اور اپوزیشن دونوں کی معاشی میدان میں  کیفیت یہ ہے کہ ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم۔ دونوں طرف کے سیاست دان یہی سوچ رہے ہیں کہ ہمارا کام محض حکومت بچانا یا حکومت گرانا ہے اور معیشت کی بہتری کے لیے دونوں شاید کسی مسیحا  کے منتظر ہیں۔  

متعلقہ عنوانات