ناصر کاظمی؛ ان کی شاعری نوجوانوں میں کیوں مقبول ہے؟

برگ نے " ،" پہلی بارش" ،" دیوان " ، " سُر کی چھایا", "نشاطِ خواب" اور" خشک چشمے کے کنارے" جیسی خوبصورت تصانیف کے خالق ناصر کاظمی کے ذکر کے بغیر اردو شاعری کی کہانی کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔ ان کا پورا نام ناصر رضا کاظمی تھا ۔ 8 دسمبر 1927 کو انبالہ میں پیدا ہونے والے ناصر کاظمی 2 مارچ 1972 کو اُردو دنیا کو نہایت قیمتی شعری خزانہ سونپنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ ناصر کاظمی نے اردو شاعری کو ایک نیا آہنگ ، نئے موضوعات اور نئے طرزِ بیاں سے روشناس کرایا ۔ ان کی شاعری میں مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہو جانے کے بعد ایک درد ایک گہرا دکھ در آیا تھا لیکن وہ درد کو بھی سیلی بریٹ کرنے والے لوگوں سے تھے ۔ ان کے ہاں دکھ کی رات کے بعد سکھ کے سویرے کی امید بھی نظر آتی ہے ۔

وقت اچھا بھی آئے گا ناصر

غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

مزید پڑھیے: پوری غزل؛  دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی کے لیے یہاں پر کلک کیجیے

ناصر کاظمی نوجوان نسل کا شاعر ہے ۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ناصر کاظمی ہر دور کی نوجوان نسل کا شاعر ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے

یہ بھی پڑھیے: پوری غزل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے

کپڑے بدلنا، بال بنانا۔۔۔ سوشلائز کرنا، دوست بنانا ۔۔ یہ تمام کام نوجوانوں کی دلچسپی کے ہیں جو غالباً ہر دور میں رہے ہیں اور ہر دور میں رہیں گے ۔  انہوں نے جابجا اپنی شاعری میں نئی نسل کے احساسات ، جذبات ، خیالات اور حالات کو موضوع سخن بنایا ہے ۔ ان کی اکثر غزلیات میں کوئی نہ کوئی شعر ضرور ایسا ہوتا ہے جو نوجوان نسل کے نفسیاتی مسائل یا جذباتی احوال کی ترجمانی کرتا ہو۔ یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی

اور یہ چوٹ بھی نئی ہے ابھی

اور یہ کہ ۔۔۔

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا

جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

یہ اشعار نوجوان نسل کے معملاتِ دل کو بہت خوبصورت انداز سے اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں ۔ جب پہلے پہل نوعمری میں انسان محبت کے تجربے سے گزرتا ہے تو کچھ ایسے ہی معاملات سے دوچار ہوتا ہے ۔ جب نازک مزاج آدمی کے دل پہ تازہ تازہ عشق کی چوٹ لگتی ہے تو پھر اپنے محبوب کے بغیر دنیا نامکمل سی محسوس ہوتی ہے اور اس کا کہیں دل نہیں لگتا ۔

پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے

پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے

پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا

بادل گرجا بجلی چمکی تم یاد آئے

پوری غزل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے

بارشوں کا موسم اور محبوب کی یاد ایک پریمی کو کس طرح بے قرار کر دیتے ہیں اور وہ کیسے محبوب کی یاد اسے کبھی رلاتی اور کبھی ہنساتی ہے ، ناصر کاظمی نے ان اشعار میں نہایت چابک دستی سے سمو دیے ہیں ۔ ایسے میں دل دھڑک دھڑک کر آسمان سر پہ اٹھا لیتا ہے اب اس کا بیان دیکھیے:

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

دن گزارا تھا بڑی مشکل سے

پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا

حال دل ہم بھی سناتے لیکن

جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا

پوری غزل پڑھیےدل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

چھوٹی بحروں کی غزلوں میں ناصر کاظمی نے محبت جیسے بڑے موضوع کو جس خوبی سے زیب قرطاس کیا ہے وہ انہیں کا خاصہ ہے ۔ ان کی شاعری میں جو فطری نغمگی ، تغزل اور روانی ہے اس نے اس حسین موضوع کو حسین تر بلکہ حسین ترین کر دیا ہے ۔ ان کی شاعری شاعری کا وہ حصہ جس میں وہ ان معاملات دل کو موضوع بناتے ہیں وہ ٹائم اور سپیس کا پابند نہیں اور آنے والے زمانوں میں بھی جب شاعری میں لطیف جذبوں کی ترجمانی کا ذکر آئے گا تو ناصر کاظمی کا ذکر کیے بغیر قصہ مکمل نہ ہو گا۔ تب لکھنے والا ناصر کے بارے میں انہیں کے الفاظ دہرائے گا!

تو شریک سخن نہیں ہے تو کیا

ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی

یاد کے بے نشاں جزیروں سے

تیری آواز آ رہی ہے ابھی

متعلقہ عنوانات