اردو کیسے پڑھائیں؟: اردو تدریس میں جدت لانے کے 12 طریقے

اردوکی  تدریس    میں  بنیادی اور دور رس اصلاحات  لانے    کے لیے ضروری ہے کہ  اساتذہ    کو ان  دیرینہ      اور پیچیدہ   مسائل سے آگاہی  ہو     جن کی وجہ سے   اردو  کی تدریس زبوں حالی کا شکار ہے۔        اردو کی تدریس اور   آموزش میں  پسماندگی کی   بنیادی    وجہ یہ ہے کہ                   اردو پڑھانے      اور  سکھانے   کے  انداز       ماضی کے دور     میں  منجمد  ہو کر رہ گئے ہیں۔ چنانچہ  اصلاح      کی کسی بھی کوشش  کی    بنیاد  اس سوچ  پر مبنی ہو گی کہ    اردو کی تدریس میں   جدید   دور اور مستقبل     کی   دنیا کے تقاضوں کو  پیش نظر رکھا جائے۔   دوسرے الفاظ میں   اردو کی تدریس میں تازگی اور توانائی لانے  کی اشد ضرورت ہے۔ ۔ ذیل میں اردو تدریس کے  بنیادی مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ  ان کے ممکنہ حل بھی  بیان کیے جا رہے ہیں ۔

نوٹ: اس تحریر کے مندرجات  پاکستانی تنظیم اساتذہ برائے اردو تدریس (پتا بتا) کے زیر اہتمام ایک آن لائن کارِ گاہ (ورکشاپ) سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اس ورکشاپ کے تربیت کار جناب طاہر جاوید صاحب تھے جو پتا بتا کے بانی اور تجربہ کار ماہر تعلیم ہیں۔

1۔ تدریس کے مقصد اور طریقہ کار کا روایتی انداز:

اردو زبان کی تدریس کے روایتی     طریقے      میں  زبان کی مہارتوں کی بجائے  درسی کتابوں کی تدریس کی جاتی ہے۔ ۔ اسباق کی  منصوبہ بندی ، تدریس، امتحان  وغیرہ کے لیے نصابی  کتابوں کو ہی بنیاد بنایا جاتا ہے۔زبان کی  مؤثر  تدریس کے لیے ضروری ہے کہ اصل مقصد   طلبہ  کی    زبان کی  صلاحیتوں  کی  نشو ونما  ہو نہ کہ  نصابی کتاب       کو ختم کرانا۔     نصابی کتاب  کو  اس مقصد کے   حصول کا ایک ذریعہ  سمجھا جائے نہ کہ منزل۔  چنانچہ  اساتذہ کے لیے ضروری ہو گا کہ  وہ     نصابی کتاب کے علاوہ  دیگر  دلچسپ اور مفید  تدریسی  مواد  اور  وسائل  استعمال  کریں۔

2۔ اساتذہ میں اردو کی بنیادی مہارتوں کے حوالے سے ضروری  علم اور فہم کی کمی:

عمومی طور  پر  اساتذہ   زبان  کی بنیادی  مہارتوں (لکھنے، پڑھنے،   سننے اور  بولنے )  کے  بارے میں  درست تصورات اور ضروری علم   نہیں رکھتے۔مثلا ً پڑھنے (تفہیم)، لکھنے(انشاء)، سننے اور بولنے کی صلاحیتوں کے بارے میں درست نظریات    اور  تصورات کیا ہیں؟ ان کو عملی جامہ پہنانے کی کیا صورتیں ہیں؟     اردو کے اساتذہ کی   اس        خامی    کو دور کرنا بہت   ضروری  ہوگا۔

3۔ بنیادی مہارتوں کی ذیلی مہارتوں کے بارے میں عمومی لاعلمی

اساتذہ    اردو کی بنیادوں مہارتوں کے ساتھ ساتھ ان کی ذیلی مہارتوں سے متعلق بھی عمومی طور پر  لاعلم ہوتے ہیں۔

مثلاً : مطالعہ برائے تفہیم کی چند ذیلی مہاتیں یہ ہیں:

Fluency in words recognition, skimming, scanning, predicting,  inferring, summarizing, guessing meaning in context, local understanding,  global understanding

اسی طرح لکھنے، بولنے اور سننے کی بھی ذیلی مہارتیں ہوتی ہیں جن سے ایک استاد کا بخوبی واقف ہونا موئثر تدریس کے لیے بہت ضروری ہے۔

4۔ تحریر کی اقسام کے بارے میں لاعلمی

اردو   میں انشا   کی تدریس کا ایک اہم مسئلہ تحریر کی اقسام کے بارے میں  اساتذہ    کا   لاعلم ہونا بھی ہے   ۔ یاد رہے کہ تحریر کی اقسام اور   اصناف میں فرق ہے۔  اصناف   سے مراد  نظم  اور  نثر کی مختلف  اقسام  ہیں۔ اس میں  خط ، درخواست ، مضمون ، مکالمہ ،  کہانی، نظم، غزل،    حمد، نعت  وغیرہ۔ شامل    ہوں گے۔    جبکہ تحریر کی اقسام     سے مراد  مخصوص      صنف کی روایات ، مقصد   اور   قاری    کے مطابق    لکھنا       ہے۔  ۔تحریر کی چند اہم اقسام درج ذیل ہیں:

بیانیہ یاحکایتی ،توضیحی یامعلوماتی،تعریفی یاتوصیفی،استدلالی یاترغیبی،کاروباری یادفتری اور نجی یا ذاتی

تحریر کی صنف اور  تحریر کی قسم    کے  درمیان فرق  کے لیے        اگر ہم  مضمون  کو بطور  ایک    صنف        لیں    تو      استاد     کو  معلوم ہونا چاہیے   کہ     مضمون  کو  بیانیہ،     استدلالی،    توصیفی،   یا معلوماتی     تحریر کے طور پر لکھا جا سکتا ہے۔

5۔ طلبا کے لکھے ہوئے کام پر تبصرہ یا اس کا تجزیہ کرنے کے پرانے اور غیر موئثر انداز:

اساتذہ کی جانب سے طلبہ کی تحریر        کو         دیکھنے         اور اس پر ردّعمل       دینے کا روایتی انداز     محض  غلطیوں  کی نشاندہی کرنا          اور     غلطیوں کی تعداد     کے مطابق    تعریفی یا تنقیدی   کلمات     لکھنا      یا     علامات لگانا   ہوتا ہے۔  جب کہ    امتحانی   پرچے   میں عام طور پر    خوش خطی،   نفاست،    اور تحریر  کی  طوالت  کے مطابق نمبر دیے جاتے ہیں ۔طلبا کے لکھے ہوئے کام پر تبصرہ یا  اس کا تجزیہ کرنے کے لیے تحریر کی بنیادی خصوصیات (جیسے مواد، ترتیب وتنظیم،روانی ورفتار،ربط وتسلسل،ذخیرہ الفاظ، قواعد،خوشی خطی اور نفاست وغیرہ)    کے بارے میں اساتذہ   کے پاس    مطلوبہ علم  اور تجربہ نہیں ہوتا    ۔   انشاء کی  مؤثر تدریس کے لیے بہت ضروری  ہے کہ اساتذہ    کے      پاس    طلبہ  کی  تحریر   کے تجزیے   اور اس پر تبصرے کے   آلات   بھی ہوں اور ان کے استعمال کی مہارت  بھی۔

۔(نوٹ: اس موضوع پر  گوگل سرچ انجن سے Six Plus One Traits of Writing   کے عنوان  متعدد مضامین   بہت آسانی سے  مل جاتے ہیں)

6۔روایتی اور محدود اصنافِ سخن کا استعمال:

    اردو کی تدریس میں نہ صرف اصناف  سخن     بلکہ  موضوعات بھی   پرانے     چلے آرہے ہیں۔  لکھنے کا     کام کئی نسلوں سے    مضمون نویسی،  درخواست، خط،  جملہ سازی، وغیرہ  تک   محدود      ہے۔   موضوعات  بھی    روایات  سے ہٹنے کو تیار        نظر نہیں آتے ۔    میرا بہترین دوست،   کتب بینی کے فوائد،   میری زندگی کا  ایک یادگار  دن        جیسے موضوعات    پر مضمون  طلبہ   کے والدین  نے  بھی لکھے،     وہ خود  بھی لکھ رہے ہیں اور ان کے بچّے بھی لکھیں گے۔   پرنسپل صاحب کے نام چھُٹّی  کی درخواست         نہ جانے    کب منظور ہوگی   ۔

7۔   حقیقی زندگی میں پائے جانے والی اصناف کی جانب عدم توجّہی:

 اردو کے اساتذہ میں   تدریس میں  حقیقی  زندگی کے  لسانی  وسائل  (authentic language materials   )   کے بارے میں لاعلمی۔ کتابوں سے باہر  کی   عملی زندگی  میں  زبان کا  استعمال مختلف   شکلوں میں نظر آتا ہے،۔ مثلا" اخبار،    رسالہ،      اشتہار،    داخلہ فارم،      وِزیٹنگ کارڈ،  معلوماتی کتابچے (بروشر)،   پمفلٹ،         پوسٹر،  سائن بورڈ، وغیرہ۔  تدریسی سرگرمیوں میں ان اصناف کو شامل کرنے سےکو استعمال کرنے سے   طلبہ کے لیے   کمرہء تدریس میں  نہ صرف دلچسپی   بڑھ جائے گی بلکہ   آموزش       بھی مؤثر ہوگی۔

8۔روایتی سرگرمیوں کا روایتی استعمال:

اردو تدریس میں سالہا سال سے   الفاظ معنی اور ضد، واحد جمع، مذکر مونث، جملہ سازی، نظم کا مرکزی خیال، اشعار کی تشریح وغیرہ جیسی روایتی سرگرمیوں کا  استعمال کیا جارہا ہے۔  یہ  سرگرمیاں اردو سیکھنے  کے لیے  فائدہ مند ثابت نہیں ہوئیں۔ اس کے بجائے ہمیں نئے اور موئثر طریقے تخلیق کرنے ہوں گے۔  طلبہ کو  تخلیقی       کام کرنے  کے زیادہ مواقع     دینے ہوں گے۔    جب طلبہ    دعوت نامے،    خبر نامے،  اپنی جماعت کا نیوز لیٹر ، مزاحیہ     شاعری ، پیروڈی،   کسی مشہور کہانی کی اگلی  یا پچھلی قسط،   دلچسپ خطوط   (  اتوار کا خط پیر کے نام،    بہار کا خط  موسمِ گرما کے نام )  دادا جان کا انٹرویو     ،  پنسل کی آپ بیتی، مچھر کی ڈائری کا  ایک صفحہ،   وغیرہ  لکھ رہے ہوں گے    تو    ہم تصوّر  کر سکتے ہیں   کہ طلبہ کی  اردو کی جماعت میں     دلچسپی    کتنی   بڑھ    جائے گی۔

9۔ بولنے اور سننے کی مہارتوں کی جانب عدم توجہ:

اردو   کی تدریس کی منصوبہ بندی میں   سننے اور بولنے کی سرگرمیاں  عموما"  نظر نہیں آتیں۔کہانی گوئی،  تقریر،   مکالمہ،        بلند خوانی، نظم اور نثر پڑھنے کا  موزوں طریقہ اور سلیقہ سکھانے کی طرف توجہ بالعموم نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس  طرح ہم اپنے طلبہ   کی عمدہ اور مؤثر   گفتگو  کی  صلاحیت         کی نشو و نما            کرنے کی ذمہ داری پوری نہیں کر پاتے ۔

12۔ اردو زبان اور اردو ادب کے مابین بے مقصد اور غیر منطقی  فرق رکھنا

بیشتر سکولوں میں نصابی کتاب کے اسباق کو "ادب" اور اس کے علاوہ کام کوئی دوسرا   نام دیا جاتا ہے۔ نصابی کتاب کے اسباق  میں  شامل ہر قسم کی تحریر کو "ادب' " تصور کر لینا  غیر منطقی ہے۔   اور    یہ تفریق    ویسے بھی غیر ضروری ہے۔       نظم و نثر  کے  جو ادبی نمونے کتاب میں موجو ہیں ان کو بطور ادب     پڑھانا  تو یقینا" مفید ہو سکتا ہے مگر عموما" ایسا     ہوتا  نہیں۔عام طور  پر     سوال جواب   کی روایتی   مشقیں  دی جاتی ہیں۔

 

11۔ اساتذہ کا خود اپنی تدریسی صلاحیتوں، علمی اور ادبی ذوق و شوق کو  مسلسل نکھارتے رہنے کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس نہ کرنا ۔ اس حوالے سے کوشش اور محنت نہ کرنا۔

  عمومی مشاہدہ ہے اساتذہ میں مطالعہ کی بےحد کمی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح سے لکھنے کی طرف بھی توجہ نہیں ہے۔ لغات کا استعمال بھی مفقود ہے۔    اردو کی تدرس میں   تازگی اور توانائی لانے کے لیے یہ بہت ضروری ہو  گا کہ اردو کے اساتذہ      کثیر المطالعہ ہوں  اور وہ اپنی    تدریس       میں بہتری لانے کے لیے مسلسل  کوشش    اور محنت کر رہے ہوں۔

12۔    اساتذہ  میں اردو زبان کے بارے میں جذبہ، اور احساس تفاخر کے بجائے ایک عمومی بیزاری، اکتاہٹ اور مایوسی کی کیفیات پائی جاتی ہیں۔

اس کے اثرات نہ صرف ان کے تدریسی عمل کو متاثر کرتے ہیں بلکہ طلبا کے اردو کے بارے میں رویوں اور جذبے کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔اساتذہ میں اردو زبان کے بارے میں جوش و جذبہ اور احساسِ تفاخر کی کیفیات پائی جائیں۔ اردو کے معلمین کو ایک پُرعزم اور پُرجوش رویہ اپنانا ہوگا۔اس کے اثرات نہ صرف ان کے تدریسی عمل پر مرتب ہوں گے بلکہ طلباء میں اردو کے بارے میں رویوں اور جذبوں میں بھی مثبت تبدیلی آئے گی۔

متعلقہ عنوانات