کرونوتھراپی: کیا دوا کھانے کا وقت اس کی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے ؟

کیا وقت پر دوا کھانے سے علاج بہتر ہوسکتا ہے؟ انسان کو رات کو ہی نیند کیوں آتی ہے؟ ہمیں بھوک صبح یا شام ہی کیوں لگتی ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے اندر ایک گھڑی لگی ہوئی ہے۔۔۔۔انسانی اندرونی گھڑی۔۔۔اس گھڑی کے مطابق علاج کا طریقہ اختیار کیا جارہا ہے۔۔۔۔کرونوتھراپی یعنی وقت کے اعتبار سے دوا دینا۔۔۔۔لیکن یہ طریقہ علاج کے کیا اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟

 

یہ کائنات جس خلاق عظیم کی کاریگری کا شاہکار ہے اس کے ہر کام میں ہمیں ایک ردھم ، ایک نظم اور ایک ترتیب نظر آتی ہے ۔ اس تمام کارخانہ ہستی کے اس ربط میں ہی اس کے بلاتعطل لاتعداد صدیوں سے رواں دواں رہنے کا راز پوشیدہ ہے ۔ قدرت کا یہ ردھم ستاروں کی چال سے لے کر ہمارے اندر کے حال تک ہر جگہ ہمیں کار فرما نظر آتا ہے ۔ قدرت کی انہیں ترتیبات میں سے ایک سرکیڈین ردھم یا سرکیڈین سائیکل یا انسان کی اندرونی گھڑی ہے۔

سرکیڈین سائیکل  یا انسان کی اندرونی گھڑی کیا ہے؟:-

سرکیڈین ردھم (circadian rhythm) یا سرکیڈین سائیکل  ایک قدرتی داخلی عمل ہے جو سونے جاگنے کے چکر کو منظم کرتا ہے ۔ اسے ہم انسان کی داخلی یا اندرونی گھڑی بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ 24 گھنٹے کی تال ایک سرکیڈین کلاک  تشکیل دیتی ہے ۔

قرآن مجید میں دن رات کی تخلیق کا مقصد بیان کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا:

"اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پوشاک (کی طرح ڈھانک لینے والا) بنایا اور نیند کو (تمہارے لئے) آرام (کا باعث) بنایا اور دن کو (کام کاج کے لئے) اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا۔" (سورہ الفرقان، آیت نمبر 47)

جانوروں ، پودوں ، فنگس اور سیانوبیکٹیریا میں اس ردھم کا بڑے پیمانے پر مشاہدہ کیا گیا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہمارا سرکیڈین سائیکل ویکسین سے لے کر کھانے تک ہر چیز کو متاثر کرتا ہے  یہاں تک کہ ورزش کے نتائج پر بھی یہ اثر انداز ہوتا ہے ۔

آپ کا ڈاکٹر آپ کو بتاتا ہے کہ دن میں کتنی بار آپ کو دوا لینا چاہئے ۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اسے کھانے کے ساتھ یا اس کے بغیر لیا جانا چاہئے - لیکن وہ آپ کو بہت کم وہ خاص وقت بتاتا ہے جس میں اسے لینے کی ضرورت ہے۔ یہ موضوع کرونوتھراپی سے متعلق ہے ۔

کرونوتھراپی کیا ہے؟

 کرونوفارماکالوجی (Chronopharmacology ) جسے کرونوتھراپی  یا سرکیڈین میڈیسن  بھی کہا جاتا ہے، ان مخصوص اوقات کا کھوج لگانے کی سائنس ہے جن میں کوئی دوا سب سے بہتر نتائج دیتی ہے۔ اس طریقہ علاج میں یہ سمجھاجاتا ہے کہ بالکل صحیح وقت پر لی ہوئی گولی کا سب سے زیادہ سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے - طب کی دنیا میں یہ ایک بڑا بریک تھرو ہوسکتا ہے۔ حالیہ مطالعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دن کے کس وقت ہم بیماری کا علاج کرتے ہیں یہ انتہائی اہم ہوسکتا ہے۔  دن کے اس وقت کی نشاندہی کرنا اب ممکن ہے جب کچھ بیماریاں بدترین ہوتی ہیں۔

برمنگھم یونیورسٹی کی تحقیق:-

2011 میں برمنگھم یونیورسٹی کے محققین نے ان لوگوں کی نگرانی کی جنہیں صبح کے وقت اور شام کے وقت انفلوئنزا کی ویکسین لگائی گئی تھی ۔ ایک ماہ بعد، جن مریضوں کو صبح 9 بجے سے 11 بجے کے درمیان ویکسین لگائی گئی تھی، ان میں اینٹی فلو اینٹی باڈیز کی سطح ان مریضوں کے مقابلے میں زیادہ تھی جنہیں شام 3 بجے سے شام 5 بجے کے درمیان لگائی گئی تھیں۔

 

دمہ کے مریضوں پر کرونوتھراپی کے تجربات:-

1997 میں ہونے والی ایک تحقیق میں ڈینور میں ڈاکٹروں نے 59 دمہ کے مریضوں کو تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلے گروپ نے چار ہفتوں کے لئے ہر دن صبح 8 بجے سٹیرایڈ ان ہیلرز کا استعمال کیا۔ دوسرے گروپ نے وہی ان ہیلر سانس لینے کے لیے شام ساڑھے 5 بجے کے بعد استعمال کیا ۔ تیسرے  گروپ نے دن میں چار بار صبح 7 بجے ، 12 دوپہر ، شام 7 بجے اور رات 10 بجے ان ہیلر لیا -ایک مہینے کے بعد نتائج سامنے آئے۔ صبح 8 بجے کے گروپ میں سب سے کم بہتری دیکھی گئی۔ شام 5.30 بجے ایک انہیلر کی اتنی ہی افادیت تھی جو باقاعدہ وقفوں پر استعمال کرنے پر تھی ۔ مختصر یہ کہ ایک دوائی کا ایک بار لینا اتنا ہی مؤثر تھا جتنا کہ اسے چار بار لینا، بشرطیکہ آپ اسے دن کے صحیح وقت پر لیں۔

 

کرونوتھراپی کا سکوپ:-

ہمارا سرکیڈین سائیکل حیاتیاتی سرگرمیوں کے 24 گھنٹے کے چکر ہیں جو ہمارے اندرونی کلاک کے ساتھ ساتھ بیرونی عوامل، جیسے روشنی کے ذریعے منظم ہوتے ہیں۔ آپ رات کو  اس لیے سوتے ہیں کہ جب آپ کی ریٹنا روشنی کی غیر موجودگی کا پتہ لگاتی ہے تو  ہارمون میلاٹونن کی پیداوار  رک جاتی ہے۔  یہ ہارمون بیداری کو متحرک کرتا ہے۔ ہمارے جسم کا درجہ حرارت دن بھر میں نصف ڈگری تک بدلتا ہے۔  عام طور پر ہم صبح 4 بجے سب سے زیادہ ٹھنڈے ہوتے ہیں اور شام 6 بجے  کے وقت سب سے زیادہ گرم ہوتے ہیں۔ ہمارے ہارمونز، مدافعتی خلیات، اور اعضاء کے افعال میں بھی اتار چڑھاؤ آتا ہے۔ مثال کے طور پر، چوہوں کے جگر رات کو سکڑنے سے پہلے دن میں تقریباً 50 فیصد بڑھ جاتے ہیں۔

بہت سے کرونو بائیولوجسٹس  کا خیال ہے کہ ہمیں اس معلومات کو طب کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ 2016 میں، واسودیون (Vasudevan ) نے آکسفورڈ سینٹر فار انوویشن میں ایک کمپنی کی مشترکہ بنیاد رکھی جس کا نام سرکیڈین تھیراپیوٹکس (Circadian (Therapeutics ہے۔  وہ اور ان کے ساتھی سرکیڈین ردھم کی خرابیوں سے متعلق بیماریوں کے علاج کے لیے ادویات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ٹیم فی الحال نابینا سابق فوجیوں کے ساتھ کام کر رہی ہے جن کے نیند کے چکر میں خلل واقع ہو گیا ہے کیونکہ روشنی ان کے سرکیڈین سائیکل کو دوبارہ ترتیب نہیں دے پا رہی۔

تحقیقات ابھی جاری ہیں تاہم یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ بہت سی دوائیوں کے لیے وقت سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ اگر آپ جس بیماری کا علاج کروا رہے ہیں وہ دن کے وقت تبدیل نہیں ہوتی ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ دن کے کس وقت دوا لیتے ہیں۔ اگر کسی دوا کی نصف زندگی طویل ہے یعنی آپ کے جسم میں اس مادہ کو نصف تک کم ہونے میں ہفتوں لگتے ہیں ، تو اس کے استعمال کے  وقت سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ اس کا ارتکاز مستقل رہتا ہے۔

متعلقہ عنوانات