خلائی چٹان کا رُخ تبدیل: ناسا نے زمین کو ایک بڑے خطرے سے کیسے بچایا؟

ناسا کا خلائی مشن ایک دور درازخلائی  چٹان سے کیسے ٹکرایا؟ اس ٹکرائو کا مقصد کیا تھا؟ اس ٹکراؤ سے ناسا کی کون سی ٹیکنالوجی میں مدد ملے گی؟ کیا ناسا نے زمین کو ایک بڑے خطرے سے بچا لیا۔۔۔؟ کیا آپ ناسا کے ڈارٹ پروجیکٹ کے بارے میں جانتے ہیں؟ انسانیت کے اصل ہیرو کون ہیں؟ جانیے ایک تازہ خبر کا احوال

            چند دن قبل ہم نے ایک مضمون میں آپ کو بتایا تھا کہ "ایپوفس" نامی ایک شہابیہ 2029 یا 2036 میں زمین سے ٹکرا سکتا ہے اور زمین کو اس کے تصادم سے بچانے کے لیے ناسا کے ماہرین ایک نئی ٹیکنالوجی تیار کر نے پر کام کر رہے ہیں۔

شہاب ثاقب زمین کے لیے خطرہ کیونں ہیں؟ کلک کریں

            اس مقصد کے لیے ناسا ایک ایسے  پروجیکٹائل مشن پر غور کر رہا تھا   جو ہر وقت خلا میں موجود رہے اور اچانک نمودار ہونے والے کسی خطرناک جسم کے راستے کو تبدیل کر سکے۔یہ پروجیکٹائل محض دھکا دینے کا کام بھی کر سکے گا اور بوقت ضرورت میزائل کی طرح ٹکرا کر اس جسم کو تباہ بھی کر سکے گا ۔

            اس  ٹیکنالوجی کو پختہ کرنے کے لیے ناسا کے ماہرین نے ابتدائی طور پر ایک آزمائشی مشن تیار کیا ۔ انھوں نے خلا میں موجود ایک مصنوعی سیارچے کو ایک خلائی چٹان سے ٹکرانے کی منصوبہ بندی کی۔ اگرچہ یہ خلائی چٹان زمین کے لیے کسی بھی طرح سے خطرے کا باعث نہیں ہے لیکن ناسا کا مقصدمحض  اپنی ٹیکنالوجی کی آزمائش کرنا تھی ۔  ناسا کا یہ مشن 27 ستمبر 2022 شام سات بج کر 14 منٹ پر کامیابی سے ہمکنار ہوا ۔ آئیے اب آپ کو اس مشن کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہیں۔

            "ڈارٹ" (DART) مشن کی تفصیلات

             اس مشن کو میری لینڈ میں واقع جان ہاپکنز یونیورسٹی میں اپلائیڈ فزکس لیبارٹری کے آپریشن سینٹر سے کنٹرول کیا گیا۔  اس مشن کو "ڈارٹ"  (DART) یعنی " ڈبل ایسٹرائیڈ ری ڈائریکشن ٹیسٹ" کا نام دیا گیا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مشن تھا جس میں کسی خلائی سیارے کو جان بوجھ کر ایک خلائی چٹان سے ٹکرایا جانا تھا۔ اس مقصد کے لیے ماہرین نے  "ڈیمورفوس " (Dimorphos)  نامی ایک خلائی چٹان کا انتخاب کیا جس کا قطر صرف 160 میٹر ہے۔ یہ خلائی چٹان ایک نسبتاََ بڑے خلائی جسم "ڈیڈیموس " (Didymos) کے گرد چکر لگا رہی ہے جس کا قطر 780 میٹر ہے۔

            اس مقصد کے لیے 570 کلوگرام وزنی باکس کی شکل والے ایک خلائی جہاز کا انتخاب کیا گیا اور اسے 90،000 کلومیٹر دور ایک خلائی چٹان (ڈیمورفوس) کے ساتھ 22530 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹکرانے کے لیے تیار کیا گیا۔ اس ٹکرائو کا مشاہدہ کرنے کے لیے ایک خصوصی مشن "لیسیا کیوب" (LICIA Cube) روانہ کیا گیا تاکہ اس ٹکرائو کے اثرات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جا سکے اور مشن کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کیا جا سکے۔

            اس  خلائی جہاز نے نومبر 2021 میں اپنے ہدف کا تعاقب شروع کیا اور دس ماہ تک اس کا تعاقب جاری رکھا۔  ڈارٹ نے صرف ایک گھنٹہ پہلے  اپنے ہدف (ڈیمورفوس )کو روشنی کے نقطے کے طور پر دیکھا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ یہ چٹان بڑی ہوتی چلی گئی ۔ یہاں تک کہ پتھروں سے بکھری اس خلائی چٹان کی سطح کی تصویر اسکرین پر بھر گئی۔ اپنے آخری لمحات میں، خلائی جہاز نے 22530 کلومیٹر   فی گھنٹہ کی  رفتار سے سامنے آنے والے سیارچے" ڈیمورفوس"  کی تصاویر کی ایک سیریز واپس بھیجی۔  اس کے بعد وہ خلائی جہاز اس چٹان کے عین درمیان میں ٹکرا گیا۔ اس ٹکرائو سے پانچ منٹ پہلے تک، اگر کچھ غلط ہو جاتا تو مشن کنٹرولرز مداخلت کر سکتے تھے۔ لیکن انہیں کوئی ایڈجسٹمنٹ نہیں کرنی پڑی۔

             ناسا کے ماہرین اس مشن کی کامیابی پر بھولے نہیں سما رہے کیونکہ خلا میں لاکھوں کلومیٹر دور کسی خلائی جہاز  کو اس طرح کسی شہابی چٹان سے ٹکرانا واقعی ایک بہت مشکل کام تھا اور یہ مشن ان کی مہارت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔ ابتدائی تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ خلائی جہاز ہدف کے مرکز کے تقریباً 50 فٹ کے اندر جا کر ٹکرایا ہے۔

            آنے والے دنوں میں ناسا کے ماہرین  یہ جاننے کے لیے ڈیٹا اور تصاویر کا جائزہ لیں گے کہ DART نے ڈیمورفوس کے ساتھ کیا کیا۔ یہ پیمائش معلوم کرنا ہو گی کہ  چھوٹا سیارچہ، جو ہر 11 گھنٹے اور 55 منٹ میں Didymos کے گرد چکر لگا رہا تھا، اب  اس کی رفتار کتنی بڑھ گئی ہے۔ اس سے یہ بات جاننے میں مدد ملے گی کہ  کہ خلائی جہاز نےشہابی چٹان کی رفتار میں کتنا اضافہ کیا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس ٹکرائو سے پیدا ہونے والی تبدیلی تقریباً 1 فیصد، یا تقریباً سات سے دس  منٹ تک ہو سکتی ہے۔ یعنی اس سیارچے کی رفتار میں اضافے کی وجہ سے اب یہ اپنے مرکزی سیارچے کے گرد اپنا ایک چکر 11 گھنٹے اور 45 منٹ میں مکمل کرے گا۔

            انسانیت کے اصل ہیرو کون ہیں؟

            "آرماگیڈن" اور "ڈیپ امپیکٹ" جیسی فلموں میں ، ہالی ووڈ طویل عرصے سے خلاسے تباہی کی بارش ہونے کے امکان پر کئی فلمیں بنا چکا ہے۔ اُن فلموں کے ہیرو انسانیت  کو بچانے کے لیے اپنے خلائی جہاز کو کسی سیارچے سے ٹکرا دیتے ہیں اور اپنی جان کی قربانی دے کر زمین کو بچا لیتے ہیں۔ تاہم اس مذکورہ مشن کے اصل  ہیرو  ناسا کے وہ  سائنسدان ہیں جن کی کوششوں کی بدولت اس مشن میں کامیابی حاصل ہوئی۔اب اس ٹیکنالوجی میں مزید پختگی لائی جائے گی اور مستقبل میں زمین کے لیے  ایسے کسی خطرے کا تدارک کرنا ممکن ہو سکے گا۔

متعلقہ عنوانات