جمیز ویب خلائی دور بین: کیا اس سے ماضی کی تصویر کشی بھی کی جاسکتی ہے؟

کئی دنوں سے سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر جیمز ویب ٹیلی اسکوپ اور ناسا کی طرف سے جاری کردہ تصاویر کا چرچا ہے۔کیا آپ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ سے متعلق جانتے ہیں؟ اس میں خاص بات کیا ہے؟ اور اس ٹیلی اسکوپ کی کھینچی گئی تصاویر کی اہمیت کیا ہے؟ ان سب سوالات کے جواب جاننے کے لیے یہ تحریر ضرور پڑھیے۔             

جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ (JWST) ایک خلائی دوربین ہے جو بنیادی طور پر انفراریڈ روشنی کے ذریعے فلکی اجسام کو دیکھنے  کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔اس لیے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ انفراریڈ روشنی کیا ہے اور اس کی مدد سے کائنات کا مشاہدہ کرنے سے جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کس قسم کی نئی دریافتیں ممکن بنا سکتی ہے۔

انفراریڈ (Infrared) روشنی کی تعریف

               انسانی آنکھ روشنی کے طیف (سپیکٹرم) کے ایک بہت محدود حصے کو دیکھ سکتی ہے یعنی صرف ایک مخصوص طول موج کی روشنی کو دیکھ سکتی ہے۔ اس مخصوص طول موج سے زیادہ اور کم فریکوئنسی والی روشنی ہم نہیں دیکھ سکتے۔ 1800ء تک کسی نے بھی سوچا بھی نہیں تھا کہ انسانی آنکھ سے نظر آنے والی روشنی کی تنگ پٹی (طیف) سے باہر بھی روشنی کی کوئی شکل موجود ہو سکتی ہے۔ آپ نے سات رنگوں پر مشتمل روشنی کا طیف تو دیکھا ہو گا۔ اس طیف میں بائیں طرف آخرمیں سرخ رنگ ہوتا ہے۔ اس سرخ رنگ کے قریب بھی روشنی کی شعاعیں موجود ہوتی ہیں  جو ہمیں نظر نہیں آتیں ۔ سرخ رنگ کے قریب ہونے کی وجہ سے انھیں انفراریڈشعاعیں  کہا جاتا ہے۔ انفرا ریڈ اور الٹرا وائلٹ شعاعوں کی دریافت کے بعد سائنسدانوں نے روشنی کے طیف میں موجود دیگر شعاعوں کی تلاش بھی شروع کر دی جس سے ریڈیائی لہریں اور گیما شعاعوں سمیت کئی نئی اقسام دریافت ہوئیں۔

               انفراریڈ شعاعوں کا طول موج اتنا کم ہوتا ہے کہ انسانی آنکھ اسے دیکھ ہی نہیں سکتی۔ ماہرین حیاتیات نے دریافت کیا ہے کہ کئی  پرندے  اور حشرات انفراریڈ روشنی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور اس طرح انھیں اندھیرے میں بھی بخوبی نظر آتا ہے۔ آپ کے گھر میں موجود ٹیلی ویژن کے ریموٹ کنٹرول میں بھی یہی انفراریڈ استعمال ہوتی ہیں۔ اسی طرح انفرا ریڈ حساسیے (sensors) حفاظتی الارم، فائر الارم اور پولیس کے زیر استعمال سراغ رساں آلات (ڈٹیکٹرز) میں بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔ تو بس یہ نئی ٹیلی اسکوپ دراصل انھی انفراریڈ شعاعوں کی مدد سے کائنات  کا مشاہدہ کرتی ہے۔ اس طرح یہ کائنات کو زیادہ بہتر طریقے سے دیکھ سکتی ہے۔

جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ  کی وجہ تسمیہ

               جس طرح ہبل ٹیلی اسکوپ کا نام مشہور ماہر فلکیات ایڈوِن ہبل کے نام پر رکھا گیا تھا جس نے سب سے پہلے کائنات کے پھیلائو کا نظریہ پیش کیا تھا۔ اسی طرح جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کا نام بھی  جیمز ای ویب نامی  سائنسدان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کے نا م پر رکھا گیا گیا ۔جیمز ای ویب  نے 1961 سے 1968 کے درمیان ناسا کے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے چاند پر بھیجے جانے والے اپالومشن سمیت  مرکری اور جیمنی جیسے کئی نئے مشن ترتیب دئیے تھے۔

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کیسے کام کرتی ہے؟

               ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ یہ نئی خلائی دوربین دراصل انفراریڈ شعاعوں کے ذریعے کائنات کا مشاہدہ کرے گی۔ اس سے پہلے کائنات کا مشادہ کرنے کے لیے جو بھی خلائی دوربینیں استعمال کی جاتی رہی ہیں، وہ صرف نظر آنے والی روشنی (visible light) کا مشاہدہ کرتی تھیں۔ اگر چہ ہبل ٹیلی اسکوپ میں مرئی روشنی کے ساتھ ساتھ  انفراریڈ شعاعوں کو دیکھنے کی صلاحیت بھی موجود تھی لیکن یہ صلاحیت بہت محدود تھی۔جبکہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کو خاص طور پر اس لیے بنایا گیا ہے کہ وہ انفرا ریڈ شعاعوں  کے ذریعے کائنات کامشاہدہ کر سکے۔ اس طرح یہ کائنات کے کئی ایسے گوشوں کو دیکھ سکے گی جو اب تک ہماری نظروں سے اوجھل تھے۔

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کائنات کے ماضی میں کس طرح دیکھ سکتی ہے؟

               سائنسدانوں کے مطابق ہماری اس کائنات کا آغاز تقریباََ ساڑھے تیرہ ارب سال قبل ایک بہت بڑے دھماکے (بگ بینگ) کے ذریعے ہوا تھا۔ کائنات کے آغاز میں (یعنی ابتدائی چند کروڑ سال میں ) جو کہکشائیں وجود میں آئیں،  ان سے نکلنے والی روشنی خلا میں تیرہ ارب سال سے سفر کر ہی ہے۔ اتنا زیادہ عرصہ گزرنے کی وجہ سے یہ روشنی بہت مدھم ہو چکی ہے اور عام دور بین کے لیے اس کی شناخت ممکن نہیں رہی۔جبکہ  جیمز ویب کو خصوصی طور پر اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ وہ اس مدھم اور تھکی ہوئی روشنی کو محسوس کر سکتی ہے۔

               آپ کو بتاتے چلیں کہ جب روشنی بہت زیادہ فاصلہ طے کر لیتی ہے تو اس کے طیف میں سرخ منتقلی (red shift) پیدا ہو جاتی ہے یعنی اس کا جھکائو روشنی کے سرخ سرے کی طرف زیادہ ہو جاتا ہے۔۔ آپ اکثر سنتے رہتے ہیں کہ فلاں ستارہ ہم سے اتنے لاکھ نوری سال دور ہے۔ تو سائنسدانوں کو کس طرح پتا چلتا ہے کہ فلاں ستارہ یا کہکشاں ہم سے اتنے لاکھ نوری سال دور ہے۔ یہ فاصلہ سرخ منتقلی نامی مظہر کی وجہ سے ہی معلوم کیا جاتا ہے۔ دور  دراز ستارے سے آنے والی روشنی میں "سرخ منتقلی" جتنی زیادہ ہو گی، وہ اتنا ہی زیادہ دور  واقع ہو گا۔

               یعنی جب کسی دور دراز ستارے سے آنے والی روشنی ہم تک پہنچتی ہے تو حاصل ہونے والی تصویر دراصل اس ستارے کی اس وقت کی تصویر ہوتی ہے کہ جب وہاں سے یہ روشنی خارج ہوئی تھی۔ لہذاجب ہم کہتے ہیں کہ فلاں ستارے کی روشنی اتنے نوری سال کا فاصلہ طے کر کے آ رہی ہے تو ہم دراصل اس ستارے کو اتنا ہی ماضی میں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کیا دریافت کرے گی؟

               جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی بہت زیادہ بہتر انفراریڈ ریزولوشن اور حساسیت اسے ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ کی نسبت بہت پرانی، دور یا مدھم چیزوں کو دیکھنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس سے فلکیات اور کاسمولوجی کے تمام شعبوں میں تحقیقات کی ایک وسیع دنیا دریافت ہونے کی توقع ہے۔سائنسدانوں کو امید ہے کہ اس کی مدد سے  اولین  ستاروں کےمشاہدےاور ابتدائی  کہکشاؤں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ  ممکنہ طور پر دور دراز قابل رہائش سیاروں  (exoplanets )کی دریافت بھی ممکن ہو سکے گی۔

جیمز ویب کس نے تیار کی ہے؟

               اگرچہ ابتدائی طور پر یہ ناسا کا منصوبہ تھا لیکن اس پر آنے والی 10 ارب ڈالر کی کثیر لاگت کی وجہ سے ناسا نے اس کی تیاری میں  یورپی اسپیس ایجنسی (ESA) اور کینیڈین اسپیس ایجنسی (CSA) کو بھی ساتھ شامل کر لیا۔ میری لینڈ میں ناسا کے "گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر" (GSFC) نے اس دوربین کی تیاری  کا انتظام کیا ۔

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی تکنیکی معلومات

               جے ڈبلیو ایس ٹی کا بنیادی آئینہ 18 حصوں پر مشتمل ہے جو باہم مل کر  6.5 میٹر قطر (21 فٹ) رقبے کا بڑا آئینہ بناتے ہیں۔ اس طرح جے ڈبلیو ایس ٹی کو تقریباً 25 مربع میٹر کا روشنی جمع کرنے والا رقبہ حاصل ہوتا ہے، جو  ہبل دوربین سے تقریباً چھ گنا زیادہ ہے۔  یہ زمین سے تقریباً 1.5 ملین کلومیٹر (930,000 میل) کے فاصلے پر رہتے ہوئے اپنا مدار بناتی ہے جسے "ایل 2" (L2) کا نام دیا گیا ہے۔

جیمز ویب سے حاصل شدہ تصویری البم

               12 جولائی 2022 کو اس خلائی دور بین کی مدد سے حاصل کی گئی کچھ تصاویر منظر عام پر لائی گئی ہیں۔ اگر چہ ایسی ہی تصاویر ہبل دور بین کی مدد سے بھی حاصل کی گئی تھیں، لیکن جیمز ویب کی مدد سے حاصل کی گئی نئی تصاویر بہت واضح ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ابھی تو اس دور بین نے کام شروع کیا ہے۔ آئندہ دس سال میں یہ خلائی دور بین ہمارے لیے یقینا کائنات کے نئے افق پیش کرے گی۔

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی طرف سے بھیجی گئی تازہ تصاویر دیکھنے کے لیے اس لنک کا وزٹ کیجیے:

 

متعلقہ عنوانات