کیا مریخ پر انسان آباد ہیں؟

یہ 16 جون 2022 کے دن کا واقعہ ہے جب مریخ پر بھیجے گئے ناسا کے روور (Rover) نے کچھ ایسی چیز مریخ کی چٹانوں پر نوٹ کی جو اس جگہ سے میل نہیں کھاتی تھی ۔ جب اس چیز کو زوم کیا گیا تو وہ کچھ انسانی کچرے جیسا تھا ۔۔۔ جیسے کسی چیز(بسکٹ، لیز وغیرہ) کا ریپر ہو ۔ وہ چمکدار ہونے کی وجہ سے بہت نمایاں ہو گیا تھا ۔۔۔۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ انسان کا بنایا ہوا کچرا مریخ کی سطح پر پہنچا کیسے ؟

نظام شمسی میں ہماری زمین سورج سے فاصلے کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے ۔ ہماری زمین سے پہلے عطارد اور زہرہ کا نمبر ہے جو سورج کے بہت قریب ہونے کی وجہ سے بہت گرم ہیں اور وہاں زندگی کا وجود ممکن نہیں۔ زمین ایسے مدار میں ہے جو نہ تو سورج سے اتنا قریب ہے کہ وہاں زندگی جل جائے اور نہ اتنا دور ہے کہ جہاں زندگی منجمد ہو کر رہ جائے۔

 زمین کے بعد نظام شمسی میں مریخ ہی ایک ایسا سیارہ ہے جہاں کا درجہ حرارت قدرے معتدل اور زمین سے ملتا جلتا ہے ۔ اس سے آگے جتنے بھی نظام شمسی کے سیارے ہیں وہ سورج سے بہت دوری کی وجہ سے بہت زیادہ سرد ہیں ۔ مریخ کا رنگ سرخ ہے جو اس پر بہت بڑی مقدار میں آئرن آکسائیڈ کی وجہ سے ہے۔ قدیم رومی اس سیارے کی پوجا کرتے تھے اور اسے سرخ سیارے کے نام سے یاد کرتے تھے۔ رومی مریخ کو جنگ کا دیوتا قرار دیتے تھے۔

زمین سے ملتی جلتی آب و ہوا اور قربت کی وجہ سے مریخ ہمشہ سے خلائی تحقیقاتی اداروں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ مریخ پر تحقیق کی غرض سے امریکی خلائی تحقیقاتی ادارہ ناسا  بہت سے مشن روانہ کر چکا ہے جو اس سیارے کے بارے میں بہت مفید معلومات اکٹھی کرنے کامیاب رہے ہیں۔ دی پرسویرنس روور (The Perseverance Rover) بھی ناسا کی ایک ایسی ہی کاوش  ہے۔

روور مریخ کی سطح پر پہلی بار 18 فروری 2021 کو لینڈ ہوئی۔ تب سے اب تک یہ مریخ کی چٹانوں اور آب و ہوا کے بارے میں مسلسل نہایت مفید معلومات بہم ارسال کر رہی ہے۔ روور ایک روبوٹ ہے جو مریخ کی سطح پر  چٹانوں کی ساخت، بناوٹ اور ان اجزاء کی تحقیق کی غرض سے بھیجا گیا ہے۔  16 جون کو روور " دی بیکن سٹرپ" نامی مریخ کے علاقے میں گشت کر رہی تھی جب اس نے ایک چٹان میں کوئی چمکدار چیز نوٹ کی۔ جب اس چیز پر فوکس کیا گیا تو وہ ایک چمکدار فوائل کا ٹکڑا تھا۔

 اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر روور نے بتایا کہ اس کا پچھلی سٹیج کی روور اس مقام سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر کریش ہوئی تھی۔ یہ ٹکڑا غالباً اسی کے فوائل کا ہے۔۔۔۔ لیکن یہ سوال تاحال جواب طلب ہے کہ وہ ٹکڑا اس چٹان تک کیسے پہنچ گیا کیونکہ وہاں تو ہوا ہی نہیں؟

 

متعلقہ عنوانات