کہانی: ایک بستی کے لوگوں کو ایمان کی روشنی کیسے ملی؟

بہت دور دریا کے کنا رے ایک چھو ٹی سی بستی تھی ۔ ایک مسافر راستہ بھو ل کر ادھر آنکلا ۔ تھکا ماندہ بھو ک سے نڈھال مسافر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا ۔ اتنے میں بستی کے ایک آدمی کا ادھر سے گزر ہو اتو اس نے ذرا مختلف وضع قطع کے لباس والے آدمی کو درخت کے نیچے اونگھتے  ہو ئے دیکھا اس نے اسے کندھے سے پکڑ کر ہلا یا ۔ مسافر نے آنکھیں کھولیں تو سامنے بستی کا ایک آدمی کھڑا اسے گھور رہا تھا ۔

تم کو ن ہو اور یہا  ں کیا لینے آئے ہو ؟ بستی کے آدمی نے کھردرے لہجہ میں پو چھا ۔

میں ایک مسافر ہو ں ، راستہ بھو ل کر ادھر آنکلا ہو ں، مسافر نے گھبرائے ہو ئے لہجے میں جواب دیا ۔

چلو اٹھو میرے ساتھ چلو ، اگر ہماری بستی کے سردار  نے اجازت دی  تو تم یہا ں ٹھہر سکو گے ، ورنہ تمہیں فوراَ  َ بستی سے با ہر چلے جانا ہو گا ، بستی کے آدمی نے بدستور سخت لہجے میں کہا ۔

برگد کے  گھنے درخت کے نیچے بستی کے لو گ مخصوص چبو ترے پر بیٹھے ہو ئےسردار کی باتیں سننے میں مصروف تھے کہ اجنبی مسافر کو ملزم کی طرح وہا ں لایا گیا ۔ بستی کے سردار نے اجنبی کو سر سے لے کر پا ؤں تک غور سے دیکھا اور پو چھا کہ وہ کو ن ہے اور کہا ں سے آیا ہے ؟

میں ایک تجارتی قافلے کے ساتھ سفر کر رہا تھا کہ راستے میں آندھی اور طوفا ن کی وجہ سے سارا قافلہ منتشر ہو گیا ۔ جس کا جدھر کو منہ تھا وہ جان بچانے کے لیے ادھر ہی بھا گ نکلا، جان کسے پیاری نہیں ہو تی ؟

میں بھی ایک جانب بھا گا آندھی اور طوفان کا زور کم ہو ا تو کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ قافلہ کہا ں ہے اور میں کہا ں ہو ں ؟ دو روز سے بھو ک اور پیاس کے عالم میں قافلے والو ں کی تلا ش کرتے  کرتے بھٹک کر ادھر آنکلا ہو ں۔ اجنبی مسافر نے ساری آپ بیتی سنا  ڈالی ۔

ہماری بستی کا ایک دستور ہے کہ یہا ں کسی اجنبی کو ٹھہرنے کی اجازت نہیں۔ ہا ں ایک شرط ہے  کہ وہ بستی کے لو گو ں کے کسی کام آسکے تو اسے رہنے کی اجازت مل سکتی ہے۔ سردار نے دو ٹوک الفاظ میں بتا یا ۔

میں دریا ئی گھا س سے چٹائیا ں بنانا جانتا ہو ں ۔ بستی کے لو گو ں کے لیے میں یہ کا م کر سکتا ہو ں ۔ مسافر نے جواب دیا ۔

ٹھیک ہے اگر تم بستی کے لو گو ں کے کام آؤگے تو پھر تم بستی میں رہ سکو گے ۔

سردار نے اجنبی کو بستی میں رہنے کی اجازت دیتے ہو ئے کہا ۔ اجنبی نے بستی کے ایک کنارے پر چھو ٹی سی جھونپڑی  بنا لی ۔

سارا دن دریا کے کنارے اگی ہو ئی لمبی لمبی گھا س کو خشک کرکے انہیں اتنی صفا ئی سے دھاگے کے ساتھ جو ڑتا کہ چٹائی بنتی چلی جا تی ۔

بستی کے لو گ اگر چہ ایک سردار کے ما تحت تھے ۔ لیکن ہر کسی کا پو جا پا ٹ کا انداز جدا جدا تھا ۔ صبح سویرے سورج کو کو ئی  سجدہ کر رہا ہو تا تو کو ئی پتھر کی مورتی کی پو جا میں مصروف ہو تا کو ئی آگ کو دیوتا سمجھ کر اس کے سامنے سر ٹیک رہا ہو تا، ایسے میں اجنبی مسافر سب سے جدا دن میں پا نچ مرتبہ مغرب کی جا نب رخ کر کے کا نو ں میں انگلیا ں دیےہلکے انداز میں کچھ بو ل ادا کرتا۔

اس کے بعد کبھی کھڑا ہو تا کبھی بیٹھتا ،کبھی  زمیں پر بچھی ہو ئی چٹائی پراپنا سر  رکھتا اور پھر کچھ دیر بعد بیٹھ کر دائیں اور با ئیں جانب دیکھتا، اس کے بعد ہا تھ اٹھا تا  منہ میں آہستہ آہستہ کچھ پڑھتا اور پھر چہرے پر ہا تھ پھیر کر دوبارہ چٹائیا ں بنانے میں مصروف ہو جا تا ۔

اجنبی مسافر کی ان حرکات و سکنات نے بستی کے ہر آدمی کے اند ر تجسس پیدا کر دیا تھا کہ سب کچھ کیا اور کیو ں کرتا ہے ؟

یہ بات بستی کے سردار تک پہنچ گئی ۔ اس نے ایک دن بستی کے تمام لو گو ں کو جمع کیا اور اجنبی مسافر کو حکم دیا کے وہ بتا ئے دن میں پا نچ با رکیا عجیب و غریب حرکا ت و سکنات کر تا ہے ۔ اجنبی مسافر کے لیے یہ مو قع بہت اچھا تھا جس کا وہ مدت سے منتظر تھا ۔ اس نے بستی کے سردار اور تما م لو گو ں کو مخاطب کر کے پو چھا ۔

 آپ میں سے جو لو گ آگ کی پو جا کرتے ہیں کیا وہ آگ معمو لی پا نی سے بجھا ئی نہیں جا سکتی؟

کیو ں نہیں آگ پا نی سے بجھ جا تی ہے ۔ دو تین آوازیں ایک ساتھ بلند ہو ئیں۔ جب آگ میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ خو د کو بجھنے سے بچا سکے تو وہ بھلا تم لو گو ں کے لیے کیا کرے گی ؟

اس سوال کا جواب آگ کے پجا ریو ں کے پاس نہیں تھا ۔ اس لئے خا مو ش ہو کر بیٹھ گئے ۔ اس کے بعد اجنبی مسافر نے پتھر کی مورتی کو پوجنے والو ں سے پو چھا ۔

پتھر کی مو رتی خو د ہا تھ سے بنانا اور پھر اس کے آگے سر ٹیکنا کیسا لگتا ہے ؟

کیا مو رتی ہما رے دل کی مرادیں پو ری کرتی ہے ؟  ایک پجا ری نے جواب دیا ۔ اپنے ہا تھ سے بنائی ہو ئی پتھر کی مو رتی جو نہ دیکھ سکتی ہے  اور نہ سن سکتی ہے جسے اٹھا کر کہیں پھینک دو تو وہ بے حس و حرکت پڑی رہتی ہے ۔

 کیا یہ آپ کی دل کی مرادیں پو ری کر سکتی ہے ؟

اجنبی مسافر کے اس سوال کا جواب کسی سے نہ  بن پڑا تو اس نے درخت کی پو جا کرنے والو ں سے مخا طب ہو کر کہا ۔

درخت جسے تم نے دیوتا سمجھ رکھا ہے ۔ ایک زور دار آندھی اور طوفان کے ذریعے زمین پر گر سکتا ہے ۔ جو خو د اپنی حفاظت نہ کر سکے وہ آپ لو گو ں کی کیا حفا ظت کرے گا ۔ چا رو ں جا نب خامو شی اور سنا ٹا چھا گیا ۔

کسی سے بھی کو ئی جواب نہیں بن پا رہا تھا ۔ آخر بستی کے سردار نے خا مو شی کو توڑتے ہو ئے کہا اب تم بتا ؤ کس چیز کی پو جا کرتے ہو ؟

یہ سن کر اجنبی مسافر نے اپنی بات کا آغا ز اس طرح کیا: میں اس عظیم ہستی کی پو جا کرتا ہو ں جس نے یہ زمین ، آسما ن ، چاند ، ستارے ، آگ ، پانی ، ہوا ، پہا ڑ ، درخت اور   سب کچھ بنا یا ۔

وہ عظیم ہستی اللہ تعا لٰی ہے جس نے خو د ہمیں بھی پیدا کیا اس کا ئنات کی ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے اس لیے تو میں اس کی پو جا کرتا ہو ں ۔ صبح ہو شام ہو یا دوپہر یا رات کو وقت ہو اس کے سامنے سر جھکا تا ہو ں اور دعا کے لیے ہا تھ اٹھا تا ہو ں وہ میر ی ہر دعا سنتا اور قبو ل کرتا ہے ۔

بستی کے سارے لو گ اجنبی مسا فر کی با تو ں میں محو تھے کہ سردار نے اس  کی بات درمیا ن سے کا ٹتے ہو ئے کہا ، کچھ ہمیں بھی تو بتا ؤ کہ تم دعا میں کیا ما نگتے ہو ؟

اجنبی نے خو ش الحانی سے سورۃ الفا تحہ اور سور  ۃ العمران کی تلا وت شرو ع کی پورا مجمع وجد میں آگیا ۔ بستی کا سردار ایک ایک آیا ت پر جھو م رہا تھا ۔ اور یہی حال ساری بستی کے لو گو ں کا تھا ۔ اجنبی مسافر سو رۃ العمران کی تلا وت کے دوران جب آیا ت نمبر ۹۱ کے ان الفاظ : ان الد ین عنداللہ الا اسلام پر پہنچا تو اس نے رک کر بستی والو ں ان کی زبان میں مفہو م بتا یا کہ

 : ( بے شک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے )

یہ سن کر سردار سمیت بستی کے تما م لو گ بے اختیا ر پکار اٹھے کہ ہم تو آج تک سخت گمراہی میں پڑے ہو ئے تھے ۔ ہم جہا لت کی تاریکی میں ڈوبے ہو ئے تھے آج ہمیں روشنی ملی ہے ۔

 سردار نے اجنبی مسا فر کو مخا طب کر کے کہا ۔

کہ آج سے ہم بھی ساری کا ئنا ت کو بنانے اور چلانے والی عظیم ہستی اللہ تعالی کے آگے سر جھکا نے  کا اعلا ن کرتے ہیں۔

سردار کی یہ  بات بستی کے ہر آدمی کے دلو ں کی آواز تھی اور پھر ساری بستی ایما ن کے نو ر سے جگمگا اٹھی ۔

متعلقہ عنوانات