پاکستان میں سیلاب : تازہ صورت حال، ہلاکتیں، نقصانات، خدشات

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہ سیلاب 2010 سے زیادہ تباہ کن اور خطرناک نتائج کا حامل ثابت ہورہا ہے۔ پاکستان میں سیلاب کی تازہ صورت حال کیا ہے؟ کون سے علاقے سیلاب کی زد میں ہیں؟ کتنے افراد اس سیلاب سے متاثر ہوچکے ہیں؟

زیر نظر تحریر میں پاکستان میں سیلاب کے تازہ اعداد و شمار ملاحظہ کیجیے۔

نوٹ: اس تحریر میں بیان کیے گئے اعداد و شمار اقوام متحدہ کے ادارے او سی ایچ اے (اقوام متحہ کا دفتر برائے رابطہ کاری از انسانی امور) کی جاری کردہ رپورٹ (13 اگست تا 26 اگست 2022 ) سے اخذ کیے گئے ہیں۔

پاکستان میں سیلاب: اقوام متحدہ کی 26 اگست 2022 کی تازہ رپورٹ: پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں: ایک جھلک

کتنا علاقہ متاثر ہوا؟: پاکستان کے چاروں صوبوں کے 116 اضلاع سیلاب کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ ان میں سے 66 اضلاع براہ راست بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔

اموات اور زخمی افراد کی تعداد: جون 2022 سے تاحال 937 افراد لقمہء اجل بن چکے ہیں جبکہ 1343 افراد زخمی ہیں۔

بارشوں کی شرح: گزشتہ تیس برس میں بارشوں کی سطح 2.87 گنا زیادہ ہے۔ جبکہ بعض علاقوں میں یہ شرح پانچ گنا تک ریکارڈ کی گئی ہے۔

نقصان کا تخمینہ: مجموعی طور پر ساڑھے تین کروڑ افراد کی آبادی سیلاب سے متاثر ہوئی ہے۔ چھے لاکھ ستر ہزار (670328) سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا جن میں سے دو لاک اسی ہزار گھر صفحہء ہستی سے مٹ گئے۔

جانوروں کا نقصان: انسانوں کے ساتھ ساتھ مویشیوں اور پالتو جانروں کا بھی شدید نقصان ہوا۔ تقریباً سات لاکھ  چوروانوے ہزار مویشی ہلاک ہوچکے ہیں۔

قومی شاہراہیں اور پلوں کی تباہی: ملک بھر میں تین ہزار بیاسی کلومیٹر سٹرکیں اور 145 پُل مکمل طور پر ٹوٹ چکے ہیں۔ کئی علاقوں کا زمینی رابطہ ملک بھر سے منقطع ہوچکا ہے۔

فصلوں کا نقصان: سیلاب کی وجہ سے ملک میں بیس لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہونے سے غذائی بحران پیدا ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

پاکستان میں سیلاب کی مجموعی صورت حال:  تفصیلی جائزہ

رواں برس پاکستان میں مون سون کی بارشوں کی طوالت کی وجہ سے غیر معمولی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2022 میں آنے والا سیلاب 2010 کے سیلاب سے زیادہ تباہ کُن اور خطرناک صورت اختیار کرچکا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے اس صورتِ حال کے پیشِ نظر ملک میں "قومی ایمرجنسی" نافذ کردی ہے۔ سرکاری طور پر 66 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے۔ ان میں بلوچستان کے 31 اضلاع، سندھ کے 21 اضلاع، خیبرپختونخوا کے 9 اضلاع اور پنجاب کے 3 اضلاع شامل ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر ملک کے 116 اضلاع سیلاب کی زد میں آچکے ہیں۔ خدشہ ہے کہ آئندہ دنوں میں مزید اضلاع بھی سیلاب سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

زمینی و سماوی آفات سے نمٹنے کے لیے کام کرنے والے سرکاری ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق پاکستان میں تین کروڑ تیس لاکھ افراد سیلاب سے متاثر ہوچکے ہیں۔ 25 اگست 2022 کو پاکستان میں مجموعی طور پر زمینی و سماوی آفات سے نمٹنے کے لیے کام کرنے والے سرکاری ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق پاکستان میں تین کروڑ تیس لاکھ افراد سیلاب سے متاثر ہوچکے ہیں۔ 25 اگست 2022 کو پاکستان میں مجموعی طور پر 375.4 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ بارش کی شرح ملک میں تین عشروں میں ہونے والے بارش سے تقریبا تین گنا زیادہ ہے۔ گزشتہ تیس برسوں میں بارش کی اوسط شرح 130 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی ہے۔ لیکن بعض علاقوں میں بارش کی شرح پانچ گنا (یعنی تقریباً چھے سو ملی میٹر) سے بھی زیادہ نوٹ کی گئی ہے۔

این ڈی ایم اے کی طرف سے جاری کردہ اعداد وزشمار کے مطابق دولاکھ اٹھارہ ہزار گھر مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں اور چار لاکھ باون ہزار گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ مویشیوں اور فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ سات لاکھ چورانوے ہزار مویشی ہلاک ہوئے اور بیس لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی زمین تباہ ہوگئی۔ ان میں بلچستان کا تین لاکھ چار ہزار ایکڑ، ایک لاکھ اٹھتر ہزار ایکڑ پنجاب کا اور دس لاکھ چون ہزار ایکڑ سندھ کا زرعی رقبہ شامل ہے۔ مزیدازاں قومی شاہراہوں اور پلوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ تین ہزار سے زائد کلومیٹر سڑکیں اور 145 پل تباہ ہونے سے ملک کے کئی علاقوں کا زمینی ربطہ ملک بھر سے منقع ہوگیا۔ شدید بارشوں کی وجہ سے انٹرنیٹ اور موبائل سروس بھی متاثر ہورہی ہے۔ 19 اگست 2022 کو بلوچستان اور پاکستان کے شمالی اور مرکزی علاقوں بشمول اسلام آباد میں انٹرنیٹ سروس معطل رہی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بلوچتسان اور خیبرپختونخوا کے کئی علاقوں میں اب بھی انٹرنیٹ سروس کام نہیں کررہی ہے۔

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سترہ ہزار پانچ سو چھپن اسکول بھی تباہ ہوگئے۔ ان میں 15842 اسکول سندھ میں، 544 اسکول بلوچتسان میں اور 1180 اسکول پنجاب کے شامل ہیں۔ مزیدازاں 5492 اسکولوں کو نقل مکانی کرنے والے افراد کے لیے عارضی رہائش کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔

بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے دریا اور ڈیم بھی اپنی حتمی حد کو چھو رہے ہیں۔ بالخصوص دریائے سندھ (جو پاکستان کا سب سے بڑا دریا ہے) اور تربیلا ڈیم (جو رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے) اپنی حد سے زیادہ پانی جمع کرچکا ہے۔

محکمہ موسمیات اور سیلاب کی پیش گوئی کرنے والا ادارہ (ایف ایف ڈی) کے مطابق 26 تا 28 اگست تک دریائے کابل (نوشہرہ، خیبرپختونخوا) اور دریائے سندھ (کالا باغ اور چشمہ) میں اونچے درجے کا سیلاب آنے کا خدشہ ہے۔

تازہ اطلاع کے مطابق سیلابی ریلے کے باعث خیبرپختونخوا میں مُنڈا ہیڈ ورکس ٹوٹ چکا ہے۔ یہ دریائے سوات کے پانی کو کنٹرول کرنے کا بڑے بیراجوں(ہیڈ ورکس) میں سے ایک ہے۔ اس کی وجہ سے ضلع چارسدہ کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ 

متعلقہ عنوانات