الیکٹرک گاڑیوں کا تیز ترین چارجنگ اسٹیشن : 15 منٹ میں گاڑی چارج

کراچی میں  الیکٹرک گاڑیوں (EVs) کے لیے پاکستان کا پہلا فاسٹ چارجنگ اسٹیشن قائم کیا  گیاہے۔ اس اسٹیشن کو " لِبرا چارجنگ ہب"  کا نام دیا گیا ہے ۔ اس میں  160 کلو واٹ فاسٹ چارجرز ہیں جو چھوٹی بیٹریوں کے ذریعے، صرف 15 منٹ میں الیکٹرک گاڑیوں کوچارج کر سکتے ہیں۔    

               تیل کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں اورفضائی  آلودگی (کاربن کے اخراج )کے بڑھتے ہوئے عفریت پر قابو پانے کے لیے دنیا بھر میں متبادل ذرائع توانائی کے استعمال پر زور دیا جا رہا ہے۔ گاڑیوں کا دھواں ، آلودگی پھیلانے کا سب سے بڑا سبب سمجھا جاتا ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے دنیا بھر میں الیکٹرک  گاڑیوں کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی الیکٹرک گاڑیوں کی آمد آمد ہےاور ان گاڑیوں کی چارجنگ کے لیے اسٹیشن بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔  

15 منٹ  میں ای-وی گاڑی چارج

               یہ پاکستان کا پہلا فاسٹ چارجنگ اسٹیشن ہے۔ کراچی کے ایک تاجر عبدالحسیب خان نےپاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی چارجنگ کے لیے کئی اسٹیشن موجود ہیں، لیکن یہ نیا اسٹیشن 160 کلو واٹ فاسٹ چارجنگ پیش کرتا ہے، جو صرف 15 منٹ کی چارجنگ کا وقت لیتاہے۔ اس کے فاسٹ چارجرز 15 منٹ میں کار کو 0 سے 80 فیصد تک ری چارج کر سکتے ہیں۔

            لبرا چارجنگ ہب کے مالک عبدالحسیب خان نے ایک مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چارج کرنے کا ریٹ65  روپے فی کلو واٹ آور ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ 46 کلو واٹ بیٹری پیک کے ساتھ ایک عام الیکٹرک گاڑی تقریباً 3000روپے میں مکمل چارج ہو سکتی ہے۔ عبدالحسیب نے حکومت سے پاکستان بھر میں ایسے اسٹیشنوں کے قیام میں مدد کے لیے مزید پول ماؤنٹڈ ٹرانسفارمرز (PMT) لگانے کا مطالبہ کیا۔

                انہوں نے مزید کہا کہ "یہ ایک ماحول دوست ایندھن ہے جو حکومت کو توانائی کے کچھ بوجھ کو اتارنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے"۔ خان نے مزید کہا کہ کار مالکان خود کو الیکٹرک گاڑیوں پر منتقل کر کے ایندھن بھرنے سے نجات دلا سکتے ہیں۔

پاکستان کی معیشت پر الیکٹرک گاڑیوں کے اثرات

               نومبر 2019 میں، پاکستان کی حکومت نے نیشنل الیکٹرک وہیکل (EV) پالیسی کی منظوری دی۔ اس پالیسی کا مقصد پاکستان کو اپنے آب و ہوا کے اہداف کو پورا کرنے اور معیشت کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرنا تھا ۔ الیکٹرک کار انڈسٹری ایک امید افزا مارکیٹ ہے جو ملک کے حق میں کام کر سکتی ہےاور ملک کو مستقبل میں اپنی گرتی ہوئی معاشی حالت کو مستحکم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔

               نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی کے تحت، پاکستان کا ہدف 2030 تک الیکٹرک ہیوی ڈیوٹی اور الیکٹرک مسافر گاڑیوں کی 30 فیصد فروخت حاصل کرنا ہے۔ نیز 2040 تک اس شرح کو 90 فیصد تک بڑھانا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کا سب سے بڑا کارخانہ

               بڑی آٹوموبائل کمپنیاں پاکستان الیکٹرک وہیکلز مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن (PEVMA) کے ساتھ کام کر رہی ہیں اور منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ ملک میں آٹوموبائل کا شعبہ ابھی پختہ نہیں ہے لیکن مستقبل میں ملک کو اپنی پست معاشی حالت کو مستحکم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔

               الیکٹرک گاڑیوں کا ایک اور فائدہ ملک کی درآمدات پر ہوگا۔ چونکہ ملک ایندھن کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا  ہے، اس لیے الیکٹرک کاروں کی طرف جانے سے پٹرول پر آنے والی درآمدی لاگت کم ہو سکتی ہے۔

کیا پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی گنجائش ہے؟

               کاربن کے اخراج میں کمی  کے لیے نیشنل الیکٹرک وہیکل (EV) کی حکومتی پالیسی اگرچہ ایک  احسن اقدام ہے لیکن پاکستان میں بجلی کی کمی کا عفریت ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔

               یادش بخیر 2005ء میں رکازی ایندھن (پٹرولیم مصنوعات) پر انحصار کم کرنے کے لیے حکومت پاکستان نے سی این جی سیکٹر کو فروغ دینے کی پالیسی بنائی تھی جس کے بعد دھڑا دھڑ سی این جی اسٹیشنز کھولے گئے۔ اس کے محض چند برس بعد ہی ملک میں گیس کی کمی واقع ہو گئی اور یہ تمام سی این جی اسٹیشن بتدریج بند ہوتے چلے گئے۔ ایسا نہ ہو کہ الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسی کو فروغ دینے کے نتیجے میں، بجلی کا استعمال بے تحاشا بڑھ جائے اور نتیجے کے طور پر،  ملک میں بجلی کی شدید قلت ہو جائے۔

               دوسری بات یہ کہ پاکستان میں 40 فیصد بجلی رکازی ایندھن سے ہی تیار کی جاتی ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے درکار بجلی کی بڑی مقدار بھی بہرحال رکازی ایندھن سے ہی تیار کی جائے گی۔ کاربن کا اخراج اس صورت میں بھی بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دینے سے پہلے قابل تجدید ذرائع (یعنی ونڈ ٹربائن اور شمسی توانائی وغیرہ) سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔  

متعلقہ عنوانات