کراچی والے نام کیسے بگاڑتے ہیں؟

کراچی کے ایک علاقے "انچولی" میں بہت سے اَمروہے والے آباد ہیں اور بہت سے بِہار والے، جنھیں سب بِہاری کہتے ہیں۔ دونوں کے گھر کے ناموں کا پیٹرن بھی بہت دلچسپ ہے۔ بِہاریوں میں اَچّھُو ہوتا ہے، اَمروہے والوں میں اَچّھن۔ وہاں مُنو، یہاں مُنّن۔ اُدھر شَبو، اِدھر شَبّن۔ وہاں چَھنُو، یہاں چَھنّن۔

لَڈّن جعفری اگر بِہاری ہوتے تو ان کا نام لڈو جعفری ہوتا۔

رئیس امروہوی کو گھر میں اَچھّن، سیّد محمد تقی کو چَھبّن اور محمد عباس کو بَچھٌن کہا جاتا تھا۔ شاید یہ شعر رئیس امروہوی کی بیٹی شاہانہ ایلیا نے کہا تھا:

اچھن، چھبن، بچھن، جون

ان چاروں میں اچھا کون؟

مجھے آج کی صورتحال کا علم نہیں لیکن ڈھائی تین عشرے پہلے اَنچولی کے لڑکے نام رکھنے میں بہت تیز تھے۔ شیعوں کی اکثریت ہے اس لیے ہر گھر میں حسن، حسین، عباس اور رضا نام کا کوئی نہ کوئی لڑکا ضرور ہوتا ہے۔ آپ کسی گلی میں جاکر کہیں، رضا کا گھر کون سا ہے؟ لوگ پوچھیں گے، کون سا رضا؟ حسن کا بھائی یا حسین کا چچا یا عباس کا ماموں یا علی کا کزن؟

یاروں نے اس مشکل کا عجیب حل نکالا۔ ایک حسن بھائی بہت موٹے شیشوں کا چشمہ لگاتے تھے۔ ستم ظریفوں نے ان کا نام اندھے حسن رکھ دیا۔ دوسرے حسن بھائی چشمہ نہیں لگاتے تھے۔ کم بختوں نے انھیں چُندھے حسن کہنا شروع کردیا۔ ایک انور شاہ جی ہوگئے اور دوسرے انور حاجی۔ ایک کامی باس ہیں اور ایک کامی بھوں۔

ہمارے محلے میں حیدر بھائی رہتے تھے جو شاعری کرتے تھے۔ اکثر اپنی غزلیں مجھے دیتے تھے کہ کہیں چھپوا دو۔ تخلص یاد نہیں کیا تھا لیکن پورا محلہ انھیں جنرل اور ان کے چھوٹے بھائی کو کرنل کہا کرتا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ اَنچولی میں جتنے نام کرنل نے رکھے ہیں، کسی نے نہیں رکھے۔ کرنل کی گلی میں ڈئیر بھائی رہتے تھے۔ ڈئیر بھلا کیا نام ہوا؟ میں نے پوچھا، یہ نام کیوں رکھا؟ کسی نے بتایا کہ ڈئیر بھائی دل کے مریض ہیں۔ بیٹری لگی ہوئی ہے۔ ان دنوں ٹی وی پر "ڈئیر بیٹری سیل" کا اشتہار آتا تھا۔ سو ڈئیر نام مشہور ہوگیا۔

بعض لوگوں کے نام کسی ہم نام کی وجہ سے بگڑے۔ ایک خرم کا نام طوطا پڑگیا تو دوسرے خرم کو بھی طوطا کہا جانے لگا۔ کوئی پوچھتا کہ خرم کہاں ہے؟ تو الٹا سوال ہوتا، کون سا خرم؟ خرم طوطا! کون سا خرم طوطا؟ بڑا طوطا یا چھوٹا طوطا؟

ایک گڈو کا نام چِلّی ہوا تو دوسرے گڈو کو بھی چِلّی کا خطاب مل گیا۔ اس خطاب کا شیخ چلی سے کوئی تعلق تھا یا نہیں، معلوم نہیں۔

اشتیاق سے اَشّو بھائی اور اشرف سے اچھی بھائی سمجھ میں آتے ہیں لیکن شکیل بھائی کونسلر بننے کے بعد "بیلے بھائی" کیسے ہوئے، خدا بہتر جانتا ہے۔ تنویر ہَکلا اور عسکر ہَکلا رشتے دار نہیں تھے بلکہ ہَکلاتے تھے۔ ہَکلانے کے علاوہ ان کی حرکتیں بھی ایک جیسی تھیں۔ نَیّر پنجابی اور طاہر پنجابی کی بھی کوئی رشتے داری نہیں تھی۔ بلکہ طاہر بھائی تو پنجابی تھے بھی نہیں۔

ایک لڑکے کا نام پنجتن تھا۔ اسے ڈَبّو کھیلنے اور فلمیں دیکھنے کا شوق تھا۔ نوے کی دہائی میں فلم ساجن آئی تو اس نے بال بڑھائے اور سنجے دت جیسا ہئیراسٹائل اپنا لیا۔ لوگ اسے پنجے تن کے بجائے پنجے دت پکارنے لگے۔

ایک صاحب ذوالجناح پالتے تھے، ان کا نام گھوڑے شاہ مشہور ہوگیا۔ لیکن ہمارے دوست زاہد کا نام گھوڑا کس نے رکھا، یہ پتا نہیں چل سکا۔ زاہد کراچی میں ٹینس بال کرکٹ کا سب سے بڑا فنگر بولر تھا اور میں نے اچھے اچھے بیٹسمینوں کو اس کی بولنگ پر ناچتے دیکھا ہے۔

ہمارے ایک دوست عابد کی شکل انگلینڈ کے کرکٹر ڈیرک رینڈل سے ملتی تھی۔ آج بھی پورا محلہ انھیں رینڈل کہتا ہے۔ ہمارے مرحوم دوست تقی کو کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا لیکن اچھی بولنگ نہیں کرواتا تھا۔ ماٹھی یعنی خراب بولنگ کی وجہ سے اس کا نام تقی ماٹھا پڑگیا۔

انچولی میں کرکٹ کا کریز تھا اور بہت سے لڑکے کلب کرکٹ کھیلتے تھے۔ ان کی گفتگو میں مجھے شہر بھر کے کھلاڑیوں کے نام سننے کو ملتے تھے۔ میں نے 1998 میں روزنامہ ایکسپریس جوائن کیا تو وہاں ایک نوجوان نیا نیا ایم اے کیا ہوا آیا۔ میں اسپورٹس ڈیسک پر تھا۔ اس نے بھی اسپورٹس میں دلچسپی ظاہر کی اور بتایا کہ وہ کراچی کی جانب سے پیٹرنز ٹرافی کھیل چکا ہے۔ اس کا نام نصرت تھا۔ میں نے کہا، میں نے کراچی میں نصرت نام کے دو کرکٹرز کے بارے میں سن رکھا ہے۔ نصرت گورا اور نصرت چوزہ۔ تم کون سے نصرت ہو؟ اس غریب نے شرما کے بتایا، میں چوزہ ہوں۔

متعلقہ عنوانات