ظہور نظر کی غزل

    ہر گھڑی قیامت تھی یہ نہ پوچھ کب گزری

    ہر گھڑی قیامت تھی یہ نہ پوچھ کب گزری بس یہی غنیمت ہے تیرے بعد شب گزری کنج غم میں اک گل بھی لکھ نہیں سکا پورا اس بلا کی تیزی سے صرصر طرب گزری تیرے غم کی خوشبو سے جسم و جاں مہک اٹھے سانس کی ہوا جب بھی چھو کے میرے لب گزری ایک ساتھ رہ کر بھی دور ہی رہے ہم تم دھوپ اور چھاؤں کی دوستی عجب ...

    مزید پڑھیے

    چھوڑ کر دل میں گئی وحشی ہوا کچھ بھی نہیں

    چھوڑ کر دل میں گئی وحشی ہوا کچھ بھی نہیں کس قدر گنجان جنگل تھا رہا کچھ بھی نہیں خاک پائے یاد تک گیلی ہوا نے چاٹ لی عشق کی غرقاب بستی میں بچا کچھ بھی نہیں حال کے زنداں سے باہر کچھ نہیں جز رود مرگ اور اس زنداں میں جز زنجیر پا کچھ بھی نہیں ہجر کے کالے سمندر کا نہیں ساحل کوئی موجۂ ...

    مزید پڑھیے

    ہتھیلیوں پہ لیے اپنے سر گئے ہیں لوگ

    ہتھیلیوں پہ لیے اپنے سر گئے ہیں لوگ سفر پہ اب کہ بہ رنگ دگر گئے ہیں لوگ ترے ستم کا گلہ یوں بھی کر گئے ہیں لوگ کہ اور کچھ نہ چلا بس تو مر گئے ہیں لوگ دلوں کے تیرہ گھروں پر ترے جمال کی دھوپ جو آ پڑی ہے تو کیا کیا سنور گئے ہیں لوگ ہوا ہے یوں بھی کہ اپنی طلب کے صحرا میں مثال موجۂ جوئے ...

    مزید پڑھیے

    حیات وقف غم روزگار کیوں کرتے

    حیات وقف غم روزگار کیوں کرتے میں سوچتا ہوں کہ وہ مجھ سے پیار کیوں کرتے نہ میری راہ میں تارے نہ میرے پاس چراغ وہ میرے ساتھ سفر اختیار کیوں کرتے نگاہ صرف بلاوا نہیں کچھ اور بھی ہے یہ جانتے تو ترا اعتبار کیوں کرتے غم حیات میں ہوتا اگر نہ ہاتھ ترا تو ہم خرد میں جنوں کو شمار کیوں ...

    مزید پڑھیے

    رکھا نہیں غربت نے کسی اک کا بھرم بھی

    رکھا نہیں غربت نے کسی اک کا بھرم بھی مے خانہ بھی ویراں ہے کلیسا بھی حرم بھی لوٹا ہے زمانے نے مرا بیش بھی کم بھی چھینا تھا تجھے چھین لیا ہے ترا غم بھی بے آب ہوا اب تو مرا دیدۂ نم بھی اے گردش عالم تو کسی موڑ پہ تھم بھی سن اے بت جاندار بت سیمبر اے سن توڑے نہ گئے ہم سے تو پتھر کے صنم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2