رکھا نہیں غربت نے کسی اک کا بھرم بھی

رکھا نہیں غربت نے کسی اک کا بھرم بھی
مے خانہ بھی ویراں ہے کلیسا بھی حرم بھی


لوٹا ہے زمانے نے مرا بیش بھی کم بھی
چھینا تھا تجھے چھین لیا ہے ترا غم بھی


بے آب ہوا اب تو مرا دیدۂ نم بھی
اے گردش عالم تو کسی موڑ پہ تھم بھی


سن اے بت جاندار بت سیمبر اے سن
توڑے نہ گئے ہم سے تو پتھر کے صنم بھی


میں وصل کی بھی کر نہ سکا شدت غم کم
آیا نہ کسی کام ترے ہجر کا سم بھی


دیوار سکوں بیٹھ گئی شدت نم سے
برسا ہے مرے گھر پہ اگر ابر کرم بھی


تنہائی نہ پوچھ اپنی کہ ساتھ اہل جنوں کے
چلتے ہیں فقط چند قدم راہ کے خم بھی


صحرائے غم جاں میں بگولوں سے بچا کون
مٹ جائیں گے اے دوست ترے نقش قدم بھی


سنتے ہیں چمکتا ہے وہ چاند اب بھی سر بام
حسرت ہے کہ بس ایک نظر دیکھ لیں ہم بھی