حیات وقف غم روزگار کیوں کرتے

حیات وقف غم روزگار کیوں کرتے
میں سوچتا ہوں کہ وہ مجھ سے پیار کیوں کرتے


نہ میری راہ میں تارے نہ میرے پاس چراغ
وہ میرے ساتھ سفر اختیار کیوں کرتے


نگاہ صرف بلاوا نہیں کچھ اور بھی ہے
یہ جانتے تو ترا اعتبار کیوں کرتے


غم حیات میں ہوتا اگر نہ ہاتھ ترا
تو ہم خرد میں جنوں کو شمار کیوں کرتے


کوئی تو بات ہے ورنہ جفاؤں کے مارے
تجھے بھلا کے ترا انتظار کیوں کرتے


نظرؔ چمن میں اگر واقعی بہار آتی
تو پھول خواہش ابر بہار کیوں کرتے