ہر گھڑی قیامت تھی یہ نہ پوچھ کب گزری

ہر گھڑی قیامت تھی یہ نہ پوچھ کب گزری
بس یہی غنیمت ہے تیرے بعد شب گزری


کنج غم میں اک گل بھی لکھ نہیں سکا پورا
اس بلا کی تیزی سے صرصر طرب گزری


تیرے غم کی خوشبو سے جسم و جاں مہک اٹھے
سانس کی ہوا جب بھی چھو کے میرے لب گزری


ایک ساتھ رہ کر بھی دور ہی رہے ہم تم
دھوپ اور چھاؤں کی دوستی عجب گزری


جانے کیا ہوا ہم کو اب کے فصل گل میں بھی
برگ دل نہیں لرزا تیری یاد جب گزری


بے قرار بے کل ہے جاں سکوں کے صحرا میں
آج تک نہ دیکھی تھی یہ گھڑی جو اب گزری


بعد ترک الفت بھی یوں تو ہم جئے لیکن
وقت بے طرح بیتا عمر بے سبب گزری


کس طرح تراشو گے تہمت ہوس ہم پر
زندگی ہماری تو ساری بے طلب گزری