ہتھیلیوں پہ لیے اپنے سر گئے ہیں لوگ

ہتھیلیوں پہ لیے اپنے سر گئے ہیں لوگ
سفر پہ اب کہ بہ رنگ دگر گئے ہیں لوگ


ترے ستم کا گلہ یوں بھی کر گئے ہیں لوگ
کہ اور کچھ نہ چلا بس تو مر گئے ہیں لوگ


دلوں کے تیرہ گھروں پر ترے جمال کی دھوپ
جو آ پڑی ہے تو کیا کیا سنور گئے ہیں لوگ


ہوا ہے یوں بھی کہ اپنی طلب کے صحرا میں
مثال موجۂ جوئے سفر گئے ہیں لوگ


بڑھی ہے تشنہ لبی زندگی کی جب حد سے
تو اپنی ذات کے ساغر میں بھر گئے ہیں لوگ


دلوں میں صورتیں کیا کیا ہیں خوف پنہاں کی
بڑھا ہے اپنا ہی سایہ تو ڈر گئے ہیں لوگ


اڑے ہیں راہ گزاروں میں گرد جاں بن کے
سفر کے عشق میں کیا کیا نہ کر گئے ہیں لوگ


افق گواہ رہے قتل آفتاب کے بعد
شفق لٹی ہے تو پھر اپنے گھر گئے ہیں لوگ


یہ سیل خواب تھا یا خواب سیل تھا کیا تھا
کہ چڑھ کے صورت دریا اتر گئے ہیں لوگ


اب ان کے لوٹ نہ سکنے کا غم تجھے کیوں ہو
کہ سوئے دار ترے حکم پر گئے ہیں لوگ


نہ کوئی سایہ نہ آہٹ یہ حشر کیسا ہے
کہاں چھپی ہیں صدائیں کدھر گئے ہیں لوگ


سلگ اٹھے گا ہر اک در ہوا کے چلتے ہی
قفس میں صورت رقص شرر گئے ہیں لوگ


میں خود گیا تو کھلا سارا شہر قید میں تھا
خبر یہ تھی کہ بہت مختصر گئے ہیں لوگ


کہیں پہ کچھ تو ہوا ہے کہ آج زنداں میں
گئے ہیں اور بہت بے خطر گئے ہیں لوگ


طلوع مہر کو اب کون روک سکتا ہے
گھروں میں ہم رہ نجم سحر گئے ہیں لوگ