ظہور نظر کے تمام مواد

15 غزل (Ghazal)

    ظلم تو یہ ہے کہ شاکی مرے کردار کا ہے

    ظلم تو یہ ہے کہ شاکی مرے کردار کا ہے یہ گھنا شہر کہ جنگل در و دیوار کا ہے رنگ پھر آج دگر برگ دل زار کا ہے شائبہ مجھ کو ہوا پر تری رفتار کا ہے اس پہ تہمت نہ دھرے میرے جنوں کی کوئی مجھ پہ تو سایہ مرے اپنے ہی اسرار کا ہے صرف یہ کہنا بہت ہے کہ وہ چپ چاپ سا تھا اس کو اندازہ مرے شیوۂ ...

    مزید پڑھیے

    عشق سے کیسے بعض آئیں ہم عشق تو اپنا دھرم ہوا

    عشق سے کیسے بعض آئیں ہم عشق تو اپنا دھرم ہوا جس دن عشق سے ناطہ ٹوٹا سمجھو کریہ کرم ہوا پھر یادیں گھر گھر کر آئیں پھر سلگے بن زخموں کے پھر بوندوں نے آگ لگائی پھر ساون سرگرم ہوا روپ تو اس کو ایسا دیتے دنیا دیکھتی لیکن ہم بت سازی ہی چھوڑ چکے تھے جب وہ پتھر نرم ہوا کیسے تیشہ و تیغ ...

    مزید پڑھیے

    عشق میں معرکے بلا کے رہے

    عشق میں معرکے بلا کے رہے آخرش ہم شکست کھا کے رہے یہ الگ بات ہے کہ ہارے ہم حشر اک بار تو اٹھا کے رہے سفر غم کی بات جب بھی چلی تذکرے تیرے نقش پا کے رہے جب بھی آئی کوئی خوشی کی گھڑی دن غموں کے بھی یاد آ کے رہے جس میں سارا ہی شہر دفن ہوا فیصلے سب اٹل ہوا کے رہے اپنی صورت بگڑ گئی ...

    مزید پڑھیے

    واسطے جتنے تھے سب وہم و یقیں نے چھوڑے

    واسطے جتنے تھے سب وہم و یقیں نے چھوڑے آسماں سر سے ہٹا پاؤں زمیں نے چھوڑے کون تھا کیوں نہ رہا کیسے کریں اس کا پتہ اپنے دکھ بھی تو مکاں میں نہ مکیں نے چھوڑے خلقت شہر نہ مانی مرا ملحد ہونا ورنہ شوشے تو بہت مفتی دیں نے چھوڑے ہم نہ آغاز کے مجرم تھے نہ انجام کے ہیں ہاتھ میں ہاتھ لیے تم ...

    مزید پڑھیے

    قحط وفائے وعدہ و پیماں ہے ان دنوں

    قحط وفائے وعدہ و پیماں ہے ان دنوں زوروں پہ احتیاط دل و جاں ہے ان دنوں ملعون ہیں جو موسم گل کے جنوں میں ہیں متروک رسم چاک گریباں ہے ان دنوں یہ رسم رفتگاں تھی فراموش ہو گئی اپنے کئے پہ کون پشیماں ہے ان دنوں آنکھیں ہیں خشک صورت صحرائے بے گیاہ سینہ ہجوم اشک سے گریاں ہے ان دنوں یہ ...

    مزید پڑھیے

تمام

6 نظم (Nazm)

    پتھراؤ

    درد تھمتا بھی نہیں حد سے گزرتا بھی نہیں بھول کر تجھ کو عجب حال ہوا ہے دل کا سالہا سال سے دل مندمل ہوتا ہوا گھاؤ ہے ڈوبتی ہے کوئی حسرت نہ ابھرتی ہے امید بحر آلام میں طوفاں ہے نہ ٹھہراؤ ہے افق زیست پہ طلعت ہے نہ تاریکی ہے دور تک دھند کا موہوم سا کجراؤ ہے ساحل چشم پہ تارے ہیں نہ موتی ...

    مزید پڑھیے

    ایک بات

    مجھے ہر اک بات کی خبر ہے جو ہو چکی ہے جو ہو رہی ہے جو ہونے والی ہے آج لیکن میں صرف اس بات کے بھنور میں اتر رہا ہوں جو ہونے والی ہے جس کو سرگوشیوں کا اک بے کراں سمندر اگلنے والا ہے کارواں جس کا اب حکایت کی سر زمینوں پہ چلنے والا ہے جس کو ہر داستاں گلے سے لگانے والی ہے جس کی ہاں میں ہر ...

    مزید پڑھیے

    تلاش

    ایک محراب پھر دوسری پھر کئی بے کراں تیرگی میں ہویدا ہوئیں کوئی تھا کوئی ہے کوئی ہوگا کہیں ساعتیں تین اک ساتھ پیدا ہوئیں روح کے ہاتھ میرے بدن کا گلا گھونٹ کر تھک گئے ہاتھ میرے بدن کے بھی اٹھے مگر دامن خواہش رائیگاں تک گئے انگلیاں ٹوٹ کر کرچیاں ہو گئیں مٹھیاں بند ہونے سے مجھ پر ...

    مزید پڑھیے

    انجانا دکھ

    ہرے بھرے لہراتے پتوں والا پیڑ اندر سے کس درجہ بودا کتنا کھوکھلا ہو سکتا ہے مجھ سے پوچھو میں اک ایسے ہی چھتنار کے نیچے بیٹھا اس کی چھاؤں سے اپنے سفر کی دھوپ کا دکھڑا پھول رہا تھا آنے والے وقت کی ٹھنڈی گیلی مٹی رول رہا تھا اپنے آپ سے بول رہا تھا میں بھی کتنا خوش قسمت ہوں جیون کی ...

    مزید پڑھیے

    پہلی برف باری

    نیلگوں ابر چھٹا سرمئی شام کے سورج کی طلائی کرنیں مرمریں برف کے بلور بدن پر برسیں جھومتے پیڑوں کی باہوں میں مہکتے جھونکے پینگ سی لے کے پری چہرہ منڈیروں کی جبیں پر امڈے دھند کی ملگجی آغوش میں خوابیدہ مکانوں کی چھتوں نے اپنی چھاتیاں کھول کے انگڑائیاں لیں زلزلہ تھا کہ مرا وہم تھا ...

    مزید پڑھیے

تمام