Zubair Qaisar

زبیر قیصر

زبیر قیصر کی غزل

    صبح تک بے طلب میں جاگوں گا

    صبح تک بے طلب میں جاگوں گا آج تو بے سبب میں جاگوں گا اس سے پہلے کہ نیند ٹوٹے مری تیرے خوابوں سے اب میں جاگوں گا اب میں سوتا ہوں آپ جاگتے ہیں آپ سوئیں گے جب میں جاگوں گا دوست آگے نکل چکے ہوں گے نیند سے اپنی جب میں جاگوں گا معتبر ہوں میں قافلے کے لیے ڈٹ کے سوئیں گے سب میں جاگوں ...

    مزید پڑھیے

    مری کہانی کے کردار سانس لیتے ہیں

    مری کہانی کے کردار سانس لیتے ہیں میں سانس لوں تو مرے یار سانس لیتے ہیں ہم ایک دشت میں دیتے ہیں زندگی کی نوید ہمارے سینے میں آزار سانس لیتے ہیں کبھی تو وقت کی گردش تھکا بھی دیتی ہے سو تھام کر تری دیوار سانس لیتے ہیں اکھڑنے لگتی ہیں سانسیں الجھ کے سانسوں سے پھر اس کے بعد لگاتار ...

    مزید پڑھیے

    طناب ذات کسی ہاتھ میں جمی ہوئی ہے

    طناب ذات کسی ہاتھ میں جمی ہوئی ہے کہ جیسے وقت کی دھڑکن یہیں رکی ہوئی ہے تجھے روا نہیں پیغام وصل کے بھیجیں لکیر ہجر کی جب ہاتھ پر بنی ہوئی ہے ہر اک دراڑ بدن کی نمایاں ہو گئی ہے کہانی درد کی دیوار پر لکھی ہوئی ہے یوں ہی تو خواب ہمیں دشت کے نہیں آتے ہماری آنکھ کہیں ریت میں دبی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    جو تیرا رنگ تھا اس رنگ سے نہ کہہ پایا

    جو تیرا رنگ تھا اس رنگ سے نہ کہہ پایا میں دل کی بات کبھی ڈھنگ سے نہ کہہ پایا کسی خیال میں ترتیب کوئی تھی ہی نہیں سو شعر کوئی بھی آہنگ سے نہ کہہ پایا برادری کے کسی فیصلے نے باندھ دیا میں دل کی بات مری منگ سے نہ کہہ پایا شہید ہونے سے پہلے اسے بھی دیکھنا تھا مگر یہ بات اسے جنگ سے نہ ...

    مزید پڑھیے

    ملے کچھ عشق میں اتنا قرار کم از کم

    ملے کچھ عشق میں اتنا قرار کم از کم ہمارے چہروں پہ آئے نکھار کم از کم سنائی دینے لگے اس کی دھڑکنوں سے صدا کسی سے اتنا تو ہو ہم کو پیار کم از کم ہم اپنے خواب کی تعبیر کچھ نکالیں کیا کہ ایک لمحہ تو ہو پائیدار کم از کم مرے چمن میں خزاں رکھ چکی قدم لیکن مرے خیال کو ملتی بہار کم از ...

    مزید پڑھیے

    جھلستی دھوپ میں مجھ کو جلا کے مارے گا

    جھلستی دھوپ میں مجھ کو جلا کے مارے گا وہ میرا اپنا ہے چھاؤں میں لا کے مارے گا وہ چاہتا تو مری خاک ہی اڑا دیتا یہ کوزہ گر کی عنایت بنا کے مارے گا اسے خبر ہے لڑائی میں ہار سکتا ہے سو اپنا آپ وہ مجھ میں سما کے مارے گا اس ایک خوف سے میں جنگ میں شہید ہوا عدو کمینہ ہے طعنے خدا کے مارے ...

    مزید پڑھیے

    وفا کے جرم میں اکثر پکارے جاتے ہیں

    وفا کے جرم میں اکثر پکارے جاتے ہیں ہم اہل عشق محبت میں مارے جاتے ہیں ہماری لاش تو گرتی ہے جنگ لڑتے ہوئے مگر جو پیٹھ پہ برچھے اتارے جاتے ہیں عمامہ سجتا ہے آخر امیر شہر کے سر ہمارے جیسے عقیدت میں وارے جاتے ہیں میں روک سکتا نہیں خاک کو بکھرنے سے سمندروں کی طرف چل کے دھارے جاتے ...

    مزید پڑھیے

    کہیں سے آیا تمہارا خیال ویسے ہی

    کہیں سے آیا تمہارا خیال ویسے ہی غزل کا ہونا ہوا ہے کمال ویسے ہی ہمارے حسن نظر کا کمال کچھ بھی نہیں تو کیا تمہارا ہے سارا جمال ویسے ہی ترا وصال کہ جس طور میرے بس میں نہیں ہوا ہے ہجر میں جینا محال ویسے ہی ترا جواب مرے کام کا نہیں ہے اب کہ میں تو بھول چکا ہوں سوال ویسے ہی کہا یہ کس ...

    مزید پڑھیے

    شکستہ خواب مرے آئینے میں رکھے ہیں

    شکستہ خواب مرے آئینے میں رکھے ہیں یہ کیا عذاب مرے آئنے میں رکھے ہیں ابھی تو عشق کی پرتیں کھلیں گی تہہ در تہہ ابھی حجاب مرے آئنے میں رکھے ہیں پڑھا رہے ہو مجھے تم یہ کس جہاں کے سبق مرے نصاب مرے آئنے میں رکھے ہیں تمہارے خواب سلامت ہیں اجڑی آنکھوں میں جو زیر آب مرے آئنے میں رکھے ...

    مزید پڑھیے

    وعدے دیے تھے اس نے نشانی تو تھی نہیں

    وعدے دیے تھے اس نے نشانی تو تھی نہیں یادوں پہ ہم نے فلم بنانی تو تھی نہیں بس دیکھنا تھا تیری ہتھیلی پہ ایک نام ہم نے تمہاری شام چرانی تو تھی نہیں کردار کی اذیتیں کچھ پوچھئے نہ بس بے ربط تھیں لکیریں کہانی تو تھی نہیں ہر ایک شخص کھوجنے میں تھا لگا ہوا میں نے کسی کو بات بتانی تو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2