Zubair Qaisar

زبیر قیصر

زبیر قیصر کی غزل

    میں کیسے جھیل سکوں گا بنانے والے کا دکھ

    میں کیسے جھیل سکوں گا بنانے والے کا دکھ چھری چھری پہ لکھا ہے لگانے والے کا دکھ غضب کی آنکھ اداکار تھی مگر ہائے تمہاری بات ہنسی میں اڑانے والے کا دکھ غزل میں درد کی پہلے بھی کچھ کمی نہیں تھی اور اس پہ ہو گیا شامل سنانے والے کا دکھ تجھے تو دکھ ہے فقط اپنی لا مکانی کا قیام کر تو ...

    مزید پڑھیے

    وہی تھی کل بھی پسند اور وہی ہے آج پسند

    وہی تھی کل بھی پسند اور وہی ہے آج پسند الگ مزاج ہے میرا الگ مزاج پسند میں کیا کروں کہ مری سوچ مختلف ہے بہت میں کیا کروں مجھے آیا نہیں سماج پسند میں اپنی راہ نکالوں گا اپنی مرضی سے مجھے نہیں ہیں زمانے ترے رواج پسند یہ میرا دل مری آنکھیں یہ میرے خواب عذاب اٹھا اے عشق تجھے جو بھی ...

    مزید پڑھیے

    نظر نظر سے ملاؤگے مارے جاؤ گے

    نظر نظر سے ملاؤگے مارے جاؤ گے زیادہ بوجھ اٹھاؤ گے مارے جاؤ گے کوئی نہیں ہے یہاں اعتبار کے قابل کسی کو راز بتاؤگے مارے جاؤ گے ہر ایک شاخ پہ چھڑکا ہوا ہے زہر یہاں شجر کو ہاتھ لگاؤ گے مارے جاؤ گے جو کاندھے پر ہو وہ گردن اتار لیتا ہے کسی کو اونچا اٹھاؤ گے مارے جاؤ گے ہر ایک آئینہ ...

    مزید پڑھیے

    الگ میں سب سے کہانی بھی ہے الگ سب سے

    الگ میں سب سے کہانی بھی ہے الگ سب سے سو مجھ کو خاک اڑانی بھی ہے الگ سب سے بدن سے روح نکل کر سما گئی تجھ میں مری یہ نقل مکانی بھی ہے الگ سب سے سمندروں میں نہیں دشت کی طرف اترا یہ میری آنکھوں کا پانی بھی ہے الگ سب سے ملا ہے درد محبت بھی اک زمانے کے بعد مجھے خوشی یہ منانی بھی ہے الگ ...

    مزید پڑھیے

    اسی کا درد ہے جس کے جگر کا لاشہ ہے

    اسی کا درد ہے جس کے جگر کا لاشہ ہے میں جانتا ہوں کہ باقی تو سب تماشہ ہے میں کیا بتاؤں جو ٹوٹا ہے مجھ پہ ظلم و ستم میں کیا لکھوں کہ مرا درد بے تحاشہ ہے بنی ہیں سازشیں موسم نے دھوپ سے مل کر ہوا نے میرے ہر اک پھول کو خراشا ہے امیر شہر میں تجھ کو تری دہائی دوں کہ میرا تولا بھی تیری نظر ...

    مزید پڑھیے

    نہ کوئی دھول نہ منزل نہ راستہ دل کا

    نہ کوئی دھول نہ منزل نہ راستہ دل کا نظر سے پار کہیں دور سلسلہ دل کا مرے دماغ نے مجھ کو جگا دیا لیکن اس ایک خواب میں چہرہ ہی رہ گیا دل کا یہ رات کون مرے ساتھ جاگتا رہا ہے یہ رات کس سے ہوا ہے مکالمہ دل کا ہر ایک سمت عزاداریاں ہوئیں قیصرؔ کیا جو میں نے ہے برپا مسالمہ دل کا

    مزید پڑھیے

    تری تصویر اٹھائی ہوئی ہے

    تری تصویر اٹھائی ہوئی ہے روشنی خواب میں آئی ہوئی ہے میں نے اس دشت کو چھانا ہوا ہے میں نے یہ خاک اڑائی ہوئی ہے دوست ہیں سارے زمانے والے میں نے دشمن سے بنائی ہوئی ہے تجھ سے امید وفاؤں کی مجھے آگ پانی میں لگائی ہوئی ہے راز کی بات بتاؤں میں تمہیں بات یہ میں نے اڑائی ہوئی ہے آج ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2