Zubair Qaisar

زبیر قیصر

زبیر قیصر کے تمام مواد

17 غزل (Ghazal)

    صبح تک بے طلب میں جاگوں گا

    صبح تک بے طلب میں جاگوں گا آج تو بے سبب میں جاگوں گا اس سے پہلے کہ نیند ٹوٹے مری تیرے خوابوں سے اب میں جاگوں گا اب میں سوتا ہوں آپ جاگتے ہیں آپ سوئیں گے جب میں جاگوں گا دوست آگے نکل چکے ہوں گے نیند سے اپنی جب میں جاگوں گا معتبر ہوں میں قافلے کے لیے ڈٹ کے سوئیں گے سب میں جاگوں ...

    مزید پڑھیے

    مری کہانی کے کردار سانس لیتے ہیں

    مری کہانی کے کردار سانس لیتے ہیں میں سانس لوں تو مرے یار سانس لیتے ہیں ہم ایک دشت میں دیتے ہیں زندگی کی نوید ہمارے سینے میں آزار سانس لیتے ہیں کبھی تو وقت کی گردش تھکا بھی دیتی ہے سو تھام کر تری دیوار سانس لیتے ہیں اکھڑنے لگتی ہیں سانسیں الجھ کے سانسوں سے پھر اس کے بعد لگاتار ...

    مزید پڑھیے

    طناب ذات کسی ہاتھ میں جمی ہوئی ہے

    طناب ذات کسی ہاتھ میں جمی ہوئی ہے کہ جیسے وقت کی دھڑکن یہیں رکی ہوئی ہے تجھے روا نہیں پیغام وصل کے بھیجیں لکیر ہجر کی جب ہاتھ پر بنی ہوئی ہے ہر اک دراڑ بدن کی نمایاں ہو گئی ہے کہانی درد کی دیوار پر لکھی ہوئی ہے یوں ہی تو خواب ہمیں دشت کے نہیں آتے ہماری آنکھ کہیں ریت میں دبی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    جو تیرا رنگ تھا اس رنگ سے نہ کہہ پایا

    جو تیرا رنگ تھا اس رنگ سے نہ کہہ پایا میں دل کی بات کبھی ڈھنگ سے نہ کہہ پایا کسی خیال میں ترتیب کوئی تھی ہی نہیں سو شعر کوئی بھی آہنگ سے نہ کہہ پایا برادری کے کسی فیصلے نے باندھ دیا میں دل کی بات مری منگ سے نہ کہہ پایا شہید ہونے سے پہلے اسے بھی دیکھنا تھا مگر یہ بات اسے جنگ سے نہ ...

    مزید پڑھیے

    ملے کچھ عشق میں اتنا قرار کم از کم

    ملے کچھ عشق میں اتنا قرار کم از کم ہمارے چہروں پہ آئے نکھار کم از کم سنائی دینے لگے اس کی دھڑکنوں سے صدا کسی سے اتنا تو ہو ہم کو پیار کم از کم ہم اپنے خواب کی تعبیر کچھ نکالیں کیا کہ ایک لمحہ تو ہو پائیدار کم از کم مرے چمن میں خزاں رکھ چکی قدم لیکن مرے خیال کو ملتی بہار کم از ...

    مزید پڑھیے

تمام