مری کہانی کے کردار سانس لیتے ہیں

مری کہانی کے کردار سانس لیتے ہیں
میں سانس لوں تو مرے یار سانس لیتے ہیں


ہم ایک دشت میں دیتے ہیں زندگی کی نوید
ہمارے سینے میں آزار سانس لیتے ہیں


کبھی تو وقت کی گردش تھکا بھی دیتی ہے
سو تھام کر تری دیوار سانس لیتے ہیں


اکھڑنے لگتی ہیں سانسیں الجھ کے سانسوں سے
پھر اس کے بعد لگاتار سانس لیتے ہیں


یہ واہمے سے مرے دل میں بے سبب تو نہیں
تری خموشی میں انکار سانس لیتے ہیں


خطوط پھٹنے لگے مٹ گئی ہیں تحریریں
سنائی دیتے ہیں افکار سانس لیتے ہیں


کہانی کار نے انکار ہی دکھایا ہے
تمام لفظوں میں اظہار سانس لیتے ہیں


جو چھو کے دیکھیے تو زندگی نہیں ملتی
زبیرؔ کس لئے بیکار سانس لیتے ہیں