طناب ذات کسی ہاتھ میں جمی ہوئی ہے

طناب ذات کسی ہاتھ میں جمی ہوئی ہے
کہ جیسے وقت کی دھڑکن یہیں رکی ہوئی ہے


تجھے روا نہیں پیغام وصل کے بھیجیں
لکیر ہجر کی جب ہاتھ پر بنی ہوئی ہے


ہر اک دراڑ بدن کی نمایاں ہو گئی ہے
کہانی درد کی دیوار پر لکھی ہوئی ہے


یوں ہی تو خواب ہمیں دشت کے نہیں آتے
ہماری آنکھ کہیں ریت میں دبی ہوئی ہے


وہ میرے ساتھ کسی دائرے میں چل رہا ہے
گھڑی کی تیسری سوئی مگر تھمی ہوئی ہے


وہ شخص فیصلہ کر کے گیا نہیں تا حال
کہ آنے والی قیامت ابھی ٹلی ہوئی ہے


وہ آئنے میں مگن کچھ بھی دیکھتا نہیں ہے
میں کیا بتاؤں مری جان پر بنی ہوئی ہے


بدن میں عشق بھی ہلکورے لے رہا ہے زبیرؔ
ہمارے سامنے رسی کوئی تنی ہوئی ہے