جو تیرا رنگ تھا اس رنگ سے نہ کہہ پایا

جو تیرا رنگ تھا اس رنگ سے نہ کہہ پایا
میں دل کی بات کبھی ڈھنگ سے نہ کہہ پایا


کسی خیال میں ترتیب کوئی تھی ہی نہیں
سو شعر کوئی بھی آہنگ سے نہ کہہ پایا


برادری کے کسی فیصلے نے باندھ دیا
میں دل کی بات مری منگ سے نہ کہہ پایا


شہید ہونے سے پہلے اسے بھی دیکھنا تھا
مگر یہ بات اسے جنگ سے نہ کہہ پایا


عجیب سی کوئی خواہش تھی ٹوٹنے کی زبیرؔ
میں آئینہ تھا مگر سنگ سے نہ کہہ پایا