کہیں سے آیا تمہارا خیال ویسے ہی

کہیں سے آیا تمہارا خیال ویسے ہی
غزل کا ہونا ہوا ہے کمال ویسے ہی


ہمارے حسن نظر کا کمال کچھ بھی نہیں
تو کیا تمہارا ہے سارا جمال ویسے ہی


ترا وصال کہ جس طور میرے بس میں نہیں
ہوا ہے ہجر میں جینا محال ویسے ہی


ترا جواب مرے کام کا نہیں ہے اب
کہ میں تو بھول چکا ہوں سوال ویسے ہی


کہا یہ کس نے کہ اکتا گیا جنوں سے میں
پڑا ہوں دشت میں اب تو نڈھال ویسے ہی


اچھالتا ہے جزیروں کو جس طرح اے بحر
مری بھی لاش کو تہہ سے اچھال ویسے ہی


نکالتا ہے تو جس طور رات سے سورج
ہماری شب سے ہمیں بھی نکال ویسے ہی