زمیں کی کیا کہوں کہ سر پہ آسمان بھی نہیں
زمیں کی کیا کہوں کہ سر پہ آسمان بھی نہیں
ہماری قسمت وفا میں امتحان بھی نہیں
اڑے تو کس طرح اڑے یہ آج طائر نگاہ
ہوا بھی گرد گرد ہے پروں میں جان بھی نہیں
سنوں میں اس کی جھوٹ بات اور ہنس کے چپ رہوں
کہ میرے منہ میں اپنے واسطے زبان بھی نہیں
قلم اٹھاؤ آج میں لہو کا ذائقہ لکھوں
کہ اب مرے یقین میں ذرا گمان بھی نہیں
یہی وہ شخص ہے کبھی جو بستیوں کا زعم تھا
اسی کی دسترس میں اب کوئی مکان بھی نہیں
یہ جسم و جاں کا قافلہ تھکن سے چور چور ہے
مگر رہ حیات میں تو سائبان بھی نہیں
عبور کر چکے تمام دشت دشت راستے
مگر ہمارے عزم میں ذرا تکان بھی نہیں
تمہاری بات بات سے بھرے پڑے ہیں روز و شب
سنائیں کیا کسی کو معتبر بیان بھی نہیں