قدم قدم پہ عجب خوف سا گزرتا ہے
قدم قدم پہ عجب خوف سا گزرتا ہے
وہ اپنے گاؤں میں جاتے ہوئے بھی ڈرتا ہے
ہوائیں چلنے لگی ہیں چہار جانب سے
سنبھالنا کہ ہر اک سلسلہ بکھرتا ہے
کبھی جھنجھوڑ کے رکھ دیتا ہے تمام بدن
کبھی وہ دل میں دبے پاؤں بھی اترتا ہے
بجائے اس کے کہ مجھ کو بھی جگمگا دیتا
وہ چاند ہو کے مری تیرگی سے ڈرتا ہے
اتر رہا ہوں میں تنہائیوں کے دریا میں
یہ دیکھنا ہے پس آب کیا ابھرتا ہے
یہ دھوپ جسم جلا دے گی ٹھیک ہے لیکن
یہاں پہ کون بھلا اپنی موت مرتا ہے