چند فقرے زیر لب تڑپا کیے
چند فقرے زیر لب تڑپا کیے
وہ ہمیں اور ہم انہیں دیکھا کیے
غم تھا اپنی بد نصیبی کا انہیں
دیر تک کچھ لفظ کل رویا کیے
میرے قدموں میں رہی منزل مری
راستے صورت مری دیکھا کیے
غم بھی اک نعمت ہے لیکن دوستو
ہم اسے پایا کیے کھویا کیے
مجھ سے مل کر کل مرے احباب بھی
دیر تک کیا جانے کیا سوچا کیے
جس سے رہتی تھی منور یہ زمیں
آسماں وہ چاند تارے کیا کیے
آسمانوں کی طرف چل دی زمیں
ہم اندھیرے غار میں سویا کیے
مل نہ پایا زندگی کا کچھ سراغ
مدتیں گزریں ہمیں پیچھا کیے
چل دیا اک اور پتہ ٹوٹ کر
آندھیوں کے دوش پر تکیہ کیے
کوئی بھی دھرتی نہ راس آئی ہمیں
ہم خلاؤں میں ظفرؔ دیکھا کیے