بجا تھا زعم اگر اپنے بال و پر کا تھا

بجا تھا زعم اگر اپنے بال و پر کا تھا
کہ شوق بھی تو اسے چاند کے سفر کا تھا


کہاں سے ٹوٹ پڑی بیچ میں فصیل جہاں
معاملہ تو فقط میرے بام و در کا تھا


میں لوٹ آیا دبے پاؤں گھر کے آنگن سے
مکان غیر کا دروازہ اپنے گھر کا تھا


خود اپنے سائے کو گھیرے میں لے کے بیٹھ گیا
کہ اہتمام مرے آخری سفر کا تھا


چھپائے بیٹھے تھے کچھ ماہ و سال ہم بھی وہیں
جہاں پہ تذکرہ پیار بھر کا تھا


ہم اپنے جذبہ و احساس لے کے پہنچے تھے
تمام کھیل وہاں ہاتھ کے ہنر کا تھا


وہ اب بھی حلقۂ دام نظر میں پھیلا ہے
جو سبز سایہ ترے پیار کے شجر کا تھا


ملے جو اس کی سہیلی سے ہم تو راز کھلا
خطوں میں ذکر کسی اور ہی ظفرؔ کا تھا