Yasmeen Hameed

یاسمین حمید

یاسمین حمید کی غزل

    تعلق کے بہاؤ کا مقدم استعارہ کس جگہ ہے

    تعلق کے بہاؤ کا مقدم استعارہ کس جگہ ہے مرے گہرے سمندر تیری وحشت کا کنارہ کس جگہ ہے بتا اے روز و شب کی بے ثباتی میں توازن رکھنے والے جسے کل ٹوٹنا ہے آج وہ روشن ستارہ کس جگہ ہے بتا سرسبز کھیتوں سے گزرنے والے بے آواز دریا اچانک پیچ کھا کر رخ بدلنے کا اشارہ کس جگہ ہے بشارت جس کے ...

    مزید پڑھیے

    کتنا مشکل تھا یہ رستہ کون لکھے گا

    کتنا مشکل تھا یہ رستہ کون لکھے گا پوری بات اور پورا قصہ کون لکھے گا دن اور رات کے آدھے آدھے بٹوارے میں کتنا کم تھا کس کا حصہ کون لکھے گا کن ہاتھوں نے کیسے کیسے پتھر کاٹے کیسے دن کا بوجھ اٹھایا کون لکھے گا کتنی دیر کو ہریالی نے آنکھیں کھولیں کتنی دیر کو بادل برسا کون لکھے ...

    مزید پڑھیے

    دولت درد سمیٹو کہ بکھرنے کو ہے

    دولت درد سمیٹو کہ بکھرنے کو ہے رات کا آخری لمحہ بھی گزرنے کو ہے خشت در خشت عقیدت نے بنایا جس کو ابر آزار اسی گھر پہ ٹھہرنے کو ہے کشت برباد سے تجدید وفا کر دیکھو اب تو دریاؤں کا پانی بھی اترنے کو ہے اپنی آنکھوں میں وہی عکس لیے پھرتے ہیں جیسے آئینۂ مقسوم سنورنے کو ہے جو ڈبوئے گی ...

    مزید پڑھیے

    اک بے پناہ رات کا تنہا جواب تھا

    اک بے پناہ رات کا تنہا جواب تھا چھوٹا سا اک دیا جو سر احتساب تھا رستہ مرا تضاد کی تصویر ہو گیا دریا بھی بہہ رہا تھا جہاں پر سراب تھا وہ وقت بھی عجیب تھا حیران کر گیا واضح تھا زندگی کی طرح اور خواب تھا پہلے پڑاؤ سے ہی اسے لوٹنا پڑا لمبی مسافتوں سے جسے اجتناب تھا پھر بے نمو زمین ...

    مزید پڑھیے

    سبک ہوتی ہوا سے تیز چلنا چاہتی ہوں

    سبک ہوتی ہوا سے تیز چلنا چاہتی ہوں میں اک جلتے دیے کے ساتھ جلنا چاہتی ہوں غبار بے یقینی نے مجھے روکا ہوا ہے زمیں سے پھوٹ کر باہر نکلنا چاہتی ہوں میں خود سہمی ہوئی ہوں آئنے کے ٹوٹنے سے بہت آہستہ سطح دل پہ چلنا چاہتی ہوں نمود صبح سے پہلے کا لمحہ دیکھنے کو اندھیری رات کے پیکر میں ...

    مزید پڑھیے

    رسائی کا قرینہ آنکھ میں ہے

    رسائی کا قرینہ آنکھ میں ہے زہے قسمت مدینہ آنکھ میں ہے میں تیرے شہر کی جانب رواں ہوں سر دریا سفینہ آنکھ میں ہے ترے دست رسا میں باب رحمت شفاعت کا خزینہ آنکھ میں ہے نہ چٹخے دیکھنا یہ تشنگی سے طلب کا آبگینہ آنکھ میں ہے جلا دے اس کو اپنی روشنی سے دعاؤں کا نگینہ آنکھ میں ہے

    مزید پڑھیے

    راستے کی سمت اکثر دیکھتے رہتے ہیں کیوں

    راستے کی سمت اکثر دیکھتے رہتے ہیں کیوں خاک اپنے فیصلوں کی چھانتے رہتے ہیں کیوں کیوں جلا رکھتے ہیں ہم اپنے تجسس کا دیا جس کو پا لیتے ہیں اس کو ڈھونڈتے رہتے ہیں کیوں ہم مہک کے استعارے کو بدلتے کیوں نہیں تحفۂ خوشبو گلوں سے مانگتے رہتے ہیں کیوں تجربہ ہم توڑنے کا کیوں اسے کرتے ...

    مزید پڑھیے

    افق تک میرا صحرا کھل رہا ہے

    افق تک میرا صحرا کھل رہا ہے کہیں دریا سے دریا مل رہا ہے لباس ابر نے بھی رنگ بدلا زمیں کا پیرہن بھی سل رہا ہے اسی تخلیق کی آسودگی میں بہت بے چین میرا دل رہا ہے کسی کے نرم لہجے کا قرینہ مری آواز میں شامل رہا ہے میں اب اس حرف سے کترا رہی ہوں جو میری بات کا حاصل رہا ہے کسی کے دل کی ...

    مزید پڑھیے

    سانحہ قسمتوں کے دریچوں میں لپکے گا چھپ جائے گا بات ٹل جائے گی

    سانحہ قسمتوں کے دریچوں میں لپکے گا چھپ جائے گا بات ٹل جائے گی سب مسافر گھروں کو پلٹ جائیں گے غم کی وحشت خوشی میں بدل جائے گی ہم ستاروں کی مانند ٹوٹیں گے اور آسماں پر لکیریں بنا جائیں گے موت کا رقص کرتی ہوئی ایک ساعت رکے گی کہیں پھر سنبھل جائے گی سارے بکھرے ہوئے لفظ کوئی اٹھا ...

    مزید پڑھیے

    عطائے ابر سے انکار کرنا چاہیئے تھا

    عطائے ابر سے انکار کرنا چاہیئے تھا میں صحرا تھی مجھے اقرار کرنا چاہیئے تھا لہو کی آنچ دینی چاہیئے تھی فیصلے کو اسے پھر نقش بر دیوار کرنا چاہیئے تھا اگر لفظ و بیاں ساکت کھڑے تھے دوسری سمت ہمیں کو رنج کا اظہار کرنا چاہیئے تھا اگر اتنی مقدم تھی ضرورت روشنی کی تو پھر سائے سے اپنے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3