Yasmeen Hameed

یاسمین حمید

یاسمین حمید کی غزل

    کیا ہوا کوئی سوچتا بھی نہیں

    کیا ہوا کوئی سوچتا بھی نہیں اور کہنے کو کچھ ہوا بھی نہیں جیسے گم ہو گئی شناخت مری اب کوئی مجھ کو ڈھونڈھتا بھی نہیں جس سے رہنے لگے گلے مجھ کو وہ ابھی مجھ کو جانتا بھی نہیں ایسا خاموش بھی نہیں لگتا اور کچھ منہ سے بولتا بھی نہیں چاہتا ہے جواب بھی سارے اور کچھ مجھ سے پوچھتا بھی ...

    مزید پڑھیے

    خلش ہے خواب ہے آدھی کہانی ہے

    خلش ہے خواب ہے آدھی کہانی ہے ہماری بات تو بس آنی جانی ہے سمندر سے تمہیں وحشت ہے کیوں اتنی اسے چھو کر تو دیکھو صرف پانی ہے میں کچھ بھی پوچھ لوں کیا فرق پڑتا ہے تمہیں تو بات ہی کوئی بنانی ہے ذرا بتلاؤ تم کس کس سے ملتے ہو تمہارے شہر میں کتنی گرانی ہے تمہیں دنیا سے مطلب ہے مجھے تم ...

    مزید پڑھیے

    کوئی پوچھے مرے مہتاب سے میرے ستاروں سے

    کوئی پوچھے مرے مہتاب سے میرے ستاروں سے چھلکتا کیوں نہیں سیلاب میں پانی کناروں سے مکمل ہو تو سچائی کہاں تقسیم ہوتی ہے یہ کہنا ہے محبت کے وفا کے حصہ داروں سے ٹھہر جائے در و دیوار پر جب تیسرا موسم نہیں کچھ فرق پڑتا پھر خزاؤں سے بہاروں سے بگولے آگ کے رقصاں رہے تا دیر ساحل پر سمندر ...

    مزید پڑھیے

    یہ دنیا دور تک کا سلسلہ نئیں

    یہ دنیا دور تک کا سلسلہ نئیں ہمیں اس کے لئے کچھ سوچنا نئیں یہ پتلا اس قدر مغرور کیوں ہے تو کیا یہ آسمانوں سے گرا نئیں بہت پہلے یہ دن آنے سے پہلے جو ہونا تھا ابھی تک بھی ہوا نئیں سبھی حق فیصلے کے منتظر ہیں کسی نے خون کا بدلہ لیا نئیں ابھی سورج میں تھوڑی روشنی ہے زمیں کا رنگ بھی ...

    مزید پڑھیے

    قیاس و یاس کی حد سے نکل کر

    قیاس و یاس کی حد سے نکل کر چلی جاؤں کہیں چہرہ بدل کر اڑے گی راکھ پھر میری ہوا میں سبک رفتار ہو جاؤں گی جل کر میں سورج کے تعاقب میں رہوں گی طلوع صبح ہو جاؤں گی ڈھل کر طلسم مہر و مہ کو توڑ ڈالے زمیں اپنی حرارت سے پگھل کر ابھی پہلا قدم طے کر رہی ہوں دوبارہ گر پڑی تھی میں سنبھل ...

    مزید پڑھیے

    مثال عکس مرے آئنے میں ڈھلتا رہا

    مثال عکس مرے آئنے میں ڈھلتا رہا وہ خد و خال بھی اپنے مگر بدلتا رہا میں پتھروں پہ گری اور خود سنبھل بھی گئی وہ خامشی سے مرے ساتھ ساتھ چلتا رہا اجالا ہوتے ہی کیسے اسے بجھاؤں گی اگر چراغ مرا تا بہ صبح جلتا رہا میں اس کے معنی و مقصد کے سنگ چنتی رہی وہ ایک حرف جو احساس کو کچلتا ...

    مزید پڑھیے

    دریا کی روانی وہی دہشت بھی وہی ہے

    دریا کی روانی وہی دہشت بھی وہی ہے اور ڈوبتے لمحات کی صورت بھی وہی ہے الفاظ بھی لکھے ہیں وہی نوک قلم نے اوراق پہ پھیلی ہوئی رنگت بھی وہی ہے کیوں اس کا سراپا نہ ہوا نقش بہ دیوار جب میں بھی وہی ہوں مری حیرت بھی وہی ہے کیوں برف سی پڑتی ہے کہیں شہر دروں پر جب مژدۂ خورشید میں حدت بھی ...

    مزید پڑھیے

    مجھے آگہی کا نشاں سمجھ کے مٹاؤ مت

    مجھے آگہی کا نشاں سمجھ کے مٹاؤ مت یہ چراغ جلنے لگا ہے اس کو بجھاؤ مت مجھے جاگنا ہے تمام عمر اسی طرح مجھے صبح و شام کے سلسلے میں ملاؤ مت مجھے علم ہے مرے خال و خد میں کمی ہے کیا مجھے آئنے کا طلسم کوئی دکھاؤ مت میں خلوص دل کی بلندیوں کے سفر پہ ہوں مجھے داستان فریب کوئی سناؤ مت مجھے ...

    مزید پڑھیے

    جاگتے سوتے ہوئے لکھتے ہیں

    جاگتے سوتے ہوئے لکھتے ہیں شعر ہم روتے ہوئے لکھتے ہیں جب بھی لکھتے ہیں مکمل خود کو کہیں کم ہوتے ہوئے لکھتے ہیں صبح سے شام تلک بھاگتے ہیں زندگی ڈھوتے ہوئے لکھتے ہیں کبھی اڑتے ہیں ستاروں کی طرف ان میں گم ہوتے ہوئے لکھتے ہیں خود بخود سونا اگلتی ہے زمین ہم تو دکھ بوتے ہوئے لکھتے ...

    مزید پڑھیے

    اتنے آسودہ کنارے نہیں اچھے لگتے

    اتنے آسودہ کنارے نہیں اچھے لگتے ایک ہی جیسے نظارے نہیں اچھے لگتے اتنی بے ربط کہانی نہیں اچھی لگتی اور واضح بھی اشارے نہیں اچھے لگتے ذرا دھیمی ہو تو خوشبو بھی بھلی لگتی ہے آنکھ کو رنگ بھی سارے نہیں اچھے لگتے پاس آ جائیں تو بے نوری مقدر ٹھہرے دور بھی اتنے ستارے نہیں اچھے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3