Yasmeen Hameed

یاسمین حمید

یاسمین حمید کی غزل

    ایک اک حرف سمیٹو مجھے تحریر کرو

    ایک اک حرف سمیٹو مجھے تحریر کرو مری یکسوئی کو آمدۂ زنجیر کرو سب خد و خال مرے دھند ہوئے جاتے ہیں صبح کے رنگ سے آؤ مجھے تصویر کرو جیتنا میرے لیے کرب ہوا جاتا ہے مرے پندار کو توڑو مجھے تسخیر کرو اس عمارت کو گرا دو جو نظر آتی ہے مرے اندر جو کھنڈر ہے اسے تعمیر کرو اب مری آنکھ سے لے ...

    مزید پڑھیے

    پردہ آنکھوں سے ہٹانے میں بہت دیر لگی

    پردہ آنکھوں سے ہٹانے میں بہت دیر لگی ہمیں دنیا نظر آنے میں بہت دیر لگی نظر آتا ہے جو ویسا نہیں ہوتا کوئی شخص خود کو یہ بات بتانے میں بہت دیر لگی ایک دیوار اٹھائی تھی بڑی عجلت میں وہی دیوار گرانے میں بہت دیر لگی آگ ہی آگ تھی اور لوگ بہت چاروں طرف اپنا تو دھیان ہی آنے میں بہت دیر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3