سانحہ قسمتوں کے دریچوں میں لپکے گا چھپ جائے گا بات ٹل جائے گی
سانحہ قسمتوں کے دریچوں میں لپکے گا چھپ جائے گا بات ٹل جائے گی
سب مسافر گھروں کو پلٹ جائیں گے غم کی وحشت خوشی میں بدل جائے گی
ہم ستاروں کی مانند ٹوٹیں گے اور آسماں پر لکیریں بنا جائیں گے
موت کا رقص کرتی ہوئی ایک ساعت رکے گی کہیں پھر سنبھل جائے گی
سارے بکھرے ہوئے لفظ کوئی اٹھا لائے گا آن کی آن میں اور پھر
الجھی الجھی زباں اپنی ترتیب بدلے گی اور اک کہانی میں ڈھل جائے گی
ایک دن ہم ارادہ کریں گے کہ اب اپنے خوابوں کی قیمت نہیں لیں گے ہم
ایک دن ہم بدل جائیں گے اور پھر خود بخود ساری دنیا بدل جائے گی
جب ستارے بجھیں گے تو شب کے سمندر میں لہروں کا رخ دیکھنے کے لیے
صبح کاذب کی آنکھیں اچانک کھلیں گی بشارت کی قندیل جل جائے گی
درد کی لو کی مدھم حرارت کے پہلو میں پتھر کا دل بھی تڑخ جائے گا
یہ جو لوہے کی دیوار اطراف جاں کھینچ رکھی ہے یہ بھی پگھل جائے گی
یہ بھی ہوگا کہ دل ایسے ہو جائے گا جیسے اس میں کوئی آرزو ہی نہ تھی
اتنا خالی یہ ہو جائے گا خالی ہونے کی دل سے خلش بھی نکل جائے گی