قیاس و یاس کی حد سے نکل کر

قیاس و یاس کی حد سے نکل کر
چلی جاؤں کہیں چہرہ بدل کر


اڑے گی راکھ پھر میری ہوا میں
سبک رفتار ہو جاؤں گی جل کر


میں سورج کے تعاقب میں رہوں گی
طلوع صبح ہو جاؤں گی ڈھل کر


طلسم مہر و مہ کو توڑ ڈالے
زمیں اپنی حرارت سے پگھل کر


ابھی پہلا قدم طے کر رہی ہوں
دوبارہ گر پڑی تھی میں سنبھل کر


رہیں پھولوں بھرے رستے سلامت
سفر کاٹوں گی انگاروں پہ چل کر


مرے عطار نے خوشبو بنائی
بہت معصوم پھولوں کو مسل کر