یشب تمنا کی غزل

    اسرار کیسے کھول دوں اس آب و گل کے میں

    اسرار کیسے کھول دوں اس آب و گل کے میں مہکا ہوا ہوں رات کی رانی سے مل کے میں کیا جانئے کہ کیسے پتا چل گیا اسے کہتا نہیں کسی سے بھی احوال دل کے میں خاک شفا کہیں کی بھی آئی نہیں ہے راس اب آسمان پر کہیں دیکھوں گا کھل کے میں اب بھی وہی ہے پیاس کی شدت وہی ہوں میں پانی تو پہلے بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    وصل بھی ہجر تھا وصال نہ تھا

    وصل بھی ہجر تھا وصال نہ تھا مل رہے تھے مگر خیال نہ تھا مل رہے تھے کہ دونوں تنہا تھے گفتگو میں بھی قیل و قال نہ تھا میرے اور اس کے درمیان ابھی کوئی بھی سلسلہ بحال نہ تھا راستے ختم ہو چکے تھے مگر واپسی کا کوئی سوال نہ تھا یہ بھی اک مرحلہ تمام ہوا ہو گئے تھے جدا ملال نہ تھا وہ ترا ...

    مزید پڑھیے

    پڑھ چکے ہیں نصاب تنہائی

    پڑھ چکے ہیں نصاب تنہائی اب لکھیں گے کتاب تنہائی وصل کی شب تمام ہوتے ہی آ گیا آفتاب تنہائی خامشی وحشتیں اداسی ہے کھل رہے ہیں گلاب تنہائی اس کی یادوں کے گھر میں جاتے ہی کھل گیا ہم پہ باب تنہائی وصل کی شب تمہارے پہلو میں لے رہا ہوں ثواب تنہائی کس کو بتلائیں کون سمجھے گا کیسے ...

    مزید پڑھیے

    کمال شوق سفر بھی ادھر ہی جاتا ہے

    کمال شوق سفر بھی ادھر ہی جاتا ہے کسی سفر کا مسافر ہو گھر ہی جاتا ہے وہ آدمی ہی تو ہوتا ہے غم کی شدت سے ہزار کوششیں کر لے بکھر ہی جاتا ہے وہ ہجر ہو کہ ترے وصل کا کوئی لمحہ وہ مستقل نہیں ہوتا گزر ہی جاتا ہے جو اس سے پہلے بھی شیشے میں بال آیا ہو تو دل کسی نئی الفت سے ڈر ہی جاتا ...

    مزید پڑھیے

    ایسا بھی نہیں درد نے وحشت نہیں کی ہے

    ایسا بھی نہیں درد نے وحشت نہیں کی ہے اس غم کی کبھی ہم نے اشاعت نہیں کی ہے جب وصل ہوا اس سے تو سرشار ہوئے ہیں اور ہجر کے موسم نے رعایت نہیں کی ہے جو تو نے دیا اس میں اضافہ ہی ہوا ہے اس درد کی دولت میں خیانت نہیں کی ہے ہم نے بھی ابھی کھول کے رکھا نہیں دل کو تو نے بھی کبھی کھل کے وضاحت ...

    مزید پڑھیے

    موجود تھے وہ میرے ہی اندر کھلے ہوئے

    موجود تھے وہ میرے ہی اندر کھلے ہوئے مجھ پر دعا کے بعد کھلے در کھلے ہوئے آنکھوں نے کر دیا اسے رخصت مگر ابھی رکھے ہوئے ہیں دل نے سبھی در کھلے ہوئے کچھ تو کھلے کہ گزری ہے کیا اہل دشت پر آئے ہیں لوگ شہر میں کیوں سر کھلے ہوئے اک خوف ہے کہ جس نے اڑائی ہے میری نیند دیکھے ہیں میں نے خواب ...

    مزید پڑھیے

    لبوں سے آشنائی دے رہا ہے

    لبوں سے آشنائی دے رہا ہے وہ لذت انتہائی دے رہا ہے محبت بھی ہوئی کار مشقت بدن تھک کر دہائی دے رہا ہے چراتا ہے بدن مجھ سے نگاہیں مجھے دل بھی صفائی دے رہا ہے کوئی بھر دے گا اپنی قربتوں سے کوئی زخم جدائی دے رہا ہے کوئی تو ہے جو اتنی سردیوں میں بدن جیسی رضائی دے رہا ہے کوئی مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    میں پہلے دل کے لئے حوصلہ بناتا ہوں

    میں پہلے دل کے لئے حوصلہ بناتا ہوں پھر اس کے بعد کوئی آسرا بناتا ہوں میں بے مراد نظر آ رہا ہوں لوگوں کو میں دوسروں کے لئے راستہ بناتا ہوں میں مانتا بھی نہیں کوئی کارساز بھی ہے مگر زمیں پہ بہت سے خدا بناتا ہوں اگر حجاب نہ ہوتا تو سب سے کہہ دیتا میں کیسے ہجر کو لذت فزا بناتا ...

    مزید پڑھیے

    ترک الفت میں بھی اس نے یہ روایت رکھی

    ترک الفت میں بھی اس نے یہ روایت رکھی روز ملنے کی پرانی وہی عادت رکھی تو گیا ہے تو پلٹ کر نہیں پوچھا میں نے ورنہ برسوں تری یادوں کی امانت رکھی کل اچانک کوئی تصویر بنی کاغذ پر مدتوں سب سے چھپا کر تیری صورت رکھی وہ مقدر میں نہیں ہے تو اسی کے دل میں کس نے ہر شے سے زیادہ چاہت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2