اسرار کیسے کھول دوں اس آب و گل کے میں

اسرار کیسے کھول دوں اس آب و گل کے میں
مہکا ہوا ہوں رات کی رانی سے مل کے میں


کیا جانئے کہ کیسے پتا چل گیا اسے
کہتا نہیں کسی سے بھی احوال دل کے میں


خاک شفا کہیں کی بھی آئی نہیں ہے راس
اب آسمان پر کہیں دیکھوں گا کھل کے میں


اب بھی وہی ہے پیاس کی شدت وہی ہوں میں
پانی تو پہلے بھی نہیں پیتا تھا ہل کے میں


چہرے سے لگ رہا تھا کہ پژمردگی سی ہے
نخرے اٹھا رہا ہوں دل مضمحل کے میں


دمڑی نہیں ہے جیب میں لیکن یہ دل تو ہے
کوئی بھی دام دوں گا یشبؔ اس کے تل کے میں