کمال شوق سفر بھی ادھر ہی جاتا ہے

کمال شوق سفر بھی ادھر ہی جاتا ہے
کسی سفر کا مسافر ہو گھر ہی جاتا ہے


وہ آدمی ہی تو ہوتا ہے غم کی شدت سے
ہزار کوششیں کر لے بکھر ہی جاتا ہے


وہ ہجر ہو کہ ترے وصل کا کوئی لمحہ
وہ مستقل نہیں ہوتا گزر ہی جاتا ہے


جو اس سے پہلے بھی شیشے میں بال آیا ہو
تو دل کسی نئی الفت سے ڈر ہی جاتا ہے


چڑھا ہوا کوئی دریا ہو یا کہ نشہ ہو
یشبؔ کبھی نہ کبھی تو اتر ہی جاتا ہے