موجود تھے وہ میرے ہی اندر کھلے ہوئے

موجود تھے وہ میرے ہی اندر کھلے ہوئے
مجھ پر دعا کے بعد کھلے در کھلے ہوئے


آنکھوں نے کر دیا اسے رخصت مگر ابھی
رکھے ہوئے ہیں دل نے سبھی در کھلے ہوئے


کچھ تو کھلے کہ گزری ہے کیا اہل دشت پر
آئے ہیں لوگ شہر میں کیوں سر کھلے ہوئے


اک خوف ہے کہ جس نے اڑائی ہے میری نیند
دیکھے ہیں میں نے خواب میں خنجر کھلے ہوئے


ممکن ہے پھر سروں کو اٹھائیں نہ فخر سے
قبروں کے دیکھ لیں جو کبھی سر کھلے ہوئے


لٹنے میں درد کیا ہے کبھی ان سے پوچھ لیں
چھوڑ آئے تھے جو لوگ یشبؔ گھر کھلے ہوئے