قیدی
پھول تھے اور قہر خوشبو کا
خوف کے گھنگھرو چھن سے بجنے لگے
چاندنی کو فروغ تھا اتنا
رات بھر اس طلسم کا فتنہ
سر اٹھاتا رہا مرے اندر
سحر میں قید آرزو میں گم
سب کے سب ہم
سب کے سب تم
جان جوکھوں میں ڈال کر نکلے
اک کشادہ مکان کی چھت پر
نرگسی چہرے بال کھولے ہوئے
ماتمی سر میں گیت گاتے ہوئے
اپنا تو دل ہی کانپ جاتا ہے
اس گلی میں ہے بیل پھولوں کی
جس کی خوشبو پہ سانپ آتا ہے