Tasleem Niyazi

تسلیم نیازی

تسلیم نیازی کی غزل

    ویسے تو سارے لوگ ہی پانی کے ہو رہے

    ویسے تو سارے لوگ ہی پانی کے ہو رہے ان میں سے کچھ ہی لوگ روانی کے ہو رہے چلنے لگے تو نقل مکانی کے ہو رہے ان میں سے ہم نہیں ہیں جو نانی کے ہو رہے دن بھر رہے نثار چمن میں گلاب پر ڈھلتے ہی شام رات کی رانی کے ہو رہے سوز و گداز شوق و ہوس جرأت و جنوں کردار میرے اس کی کہانی کے ہو رہے ہم کو ...

    مزید پڑھیے

    وفا کی جنگ میں دونوں کا اشتراک ہوا

    وفا کی جنگ میں دونوں کا اشتراک ہوا کوئی شہید ہوا اور کوئی ہلاک ہوا ادھر یقیں کا تو پہلے ہی گھر اجڑ چکا تھا توقعات کا قصہ بھی اب کے پاک ہوا کہ اس سے عشق کا دعویٰ تو کر رہے تھے سبھی وفور شوق میں دامن مرا ہی چاک ہوا برا نہیں بڑا نازک مزاج ہے مرا دوست ذرہ سا ٹوک دیا کیا کہ میں بلاک ...

    مزید پڑھیے

    کہیں دھرا ہے پس تار عنکبوت سکون

    کہیں دھرا ہے پس تار عنکبوت سکون کہیں پہ کات رہا ہے مزے سے سوت سکون سکوت موت ہے یارو سکون عین حیات اگرچہ یارو ہم آہنگ ہیں سکوت سکون دلوں سے دور یہ ویرانیوں میں رہتا ہے کہ جس طرح سے کوئی جن ہے کوئی بھوت سکون فرشتگی میں غلامی میں کچھ نہیں رکھا تلاش کیجے بغاوت میں مثل ہوت ...

    مزید پڑھیے

    بڑا ہشیار ہونے لگ گیا تھا

    بڑا ہشیار ہونے لگ گیا تھا مرا غم خوار ہونے لگ گیا تھا مری ان سوئی آنکھوں میں اچانک کوئی بے دار ہونے لگ گیا تھا گماں کے بازوؤں کو کاٹ ڈالا علمبردار ہونے لگ گیا تھا مری حسرت نہ نکلی ڈوبنے کی بھنور پتوار ہونے لگ گیا تھا بڑی مشکل سے چھوڑی حق بیانی ذلیل و خوار ہونے لگ گیا ...

    مزید پڑھیے

    بھیڑ میں خود کو گنوانے سے ذرا سا پہلے

    بھیڑ میں خود کو گنوانے سے ذرا سا پہلے مجھ کو ملتا وہ زمانے سے ذرا سا پہلے ہجر کی ہم کو کچھ ایسی بری عادت ہے کہ ہم زہر کھا لیں ترے آنے سے ذرا سا پہلے گرچہ پکڑے نہ گئے دوستو لیکن ہم بھی چور تھے شور مچانے سے ذرا سا پہلے کچھ نہیں سوچا پرندوں سے شجر چھین لئے دشت میں شہر بسانے سے ذرہ سا ...

    مزید پڑھیے

    یوں درختوں کی ہے بھر مار پرندے نہیں ہیں

    یوں درختوں کی ہے بھر مار پرندے نہیں ہیں کہا جاتا ہے کہ اس پار پرندے نہیں ہیں جو پرندہ ہے وہ تھک ہار کے بیٹھا ہوا ہے اور جو اڑنے کو ہیں تیار پرندے نہیں ہیں شاخ جمہور پہ امروز جو قابض ہیں یہاں بلیاں ہیں وہ خبردار پرندے نہیں ہیں آ رہے ہیں نا کہا نا کہ ہیں رستے میں ابھی ہم بھی انسان ...

    مزید پڑھیے

    اب تو اس سمت سے نفرت بھی نہیں آتی ہے

    اب تو اس سمت سے نفرت بھی نہیں آتی ہے ایسے حالات کی شامت بھی نہیں آتی ہے ہجر سے ٹوٹ کے میں آہ و بکا کرنے لگا مجھ اناڑی کو محبت بھی نہیں آتی ہے ہم مراعات کے لائق ہی نہیں ہیں شاید ہم کو تو ٹھیک سے مدحت بھی نہیں آتی ہے یہ ولایت ہے کہ جس راہ پہ وہ چل رہے ہیں اس قدر گر کے تو دولت بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    مچھلی کود گئی پانی میں

    مچھلی کود گئی پانی میں میں ہوں ناحق حیرانی میں راہ میں کانٹے بچھوانے ہیں مجھ کو ہے مشکل آسانی میں ایک سیانی یعنی دنیا اور اک دیوانہ یعنی میں ایک تمنا شیشے کی تھی ٹوٹ گئی کھینچا تانی میں خوابوں کا سودا کر ڈالا نیند نے آخر نادانی میں آ دھمکے ہیں گزرے لمحے شور بپا ہے ویرانی ...

    مزید پڑھیے