Talib Husain Talib

طالب حسین طالب

طالب حسین طالب کی غزل

    ہمارا دن کبھی یوں بھی شفق انجام ہو جائے

    ہمارا دن کبھی یوں بھی شفق انجام ہو جائے پرندے جھیل پر قبضہ کریں اور شام ہو جائے کسی کا ذکر چھیڑوں استعاروں میں کنایوں میں کوئی سمجھے تو شاید دو گھڑی کہرام ہو جائے تعجب ہے اگر ہر نقش موضوع سخن ٹھہرے تعجب ہے اگر بے چہرگی الزام ہو جائے ہمارے بعد ممکن ہے سخن تکمیل تک پہنچے ہمارے ...

    مزید پڑھیے

    عمر بھر ایک ہی کردار سے ڈر لگتا ہے

    عمر بھر ایک ہی کردار سے ڈر لگتا ہے آدمی ہوں مجھے تکرار سے ڈر لگتا ہے آنکھ تھک جاتی ہے چہروں کا تعاقب کرتے تیز چلتا ہوں تو رفتار سے ڈر لگتا ہے چوکھٹے بیچنے والے تری کن رس آواز کھینچ بھی لائے تو بازار سے ڈر لگتا ہے پھر کوئی زخم کہ کچھ دن ہمیں پر کار رکھے عشق کو فرصت بیکار سے ڈر ...

    مزید پڑھیے

    ہوائیں چپ تھیں لہکتی جہت پہ کوئی نہ تھا

    ہوائیں چپ تھیں لہکتی جہت پہ کوئی نہ تھا پتنگ لوٹ کے آیا تو چھت پہ کوئی نہ تھا بڑے دنوں میں پرندوں سے گفتگو سیکھی پھر انحصار ہمارا لغت پہ کوئی نہ تھا پڑی وہ دھوپ کہ شہزادیاں ٹھہر نہ سکیں وہی تھیں ریشمی سانسیں بنت پہ کوئی نہ تھا وہی رہی سہی باتیں وہی رہے سہے غم تمام شہر میں اپنی ...

    مزید پڑھیے

    لہر ٹوٹی ہے کہ آئنۂ مہتاب میں ہم

    لہر ٹوٹی ہے کہ آئنۂ مہتاب میں ہم چاند چمکا تو پڑے رہ گئے تالاب میں ہم قوس کے رنگ چرا لائیں گے اور آئیں گے پیرہن بننے کو فرصت سے ترے خواب میں ہم کوئی بے نام ہوا فصل بدن کیوں کاٹے لہلہاتے نہیں ہر خطۂ شاداب میں ہم ساحلوں پر کھڑے لوگوں کی نظر سے دیکھو ایک کشتی میں ہیں اور ایک ہی ...

    مزید پڑھیے

    غبار وقت میں بے رنگ و بو پڑا ہوا میں

    غبار وقت میں بے رنگ و بو پڑا ہوا میں کھڑا ہوں عرصۂ آفاق میں تھکا ہوا میں تری نگاہ نگارش طلب کو کیا معلوم کہ حرف و صوت سے گزرا تو کیا سے کیا ہوا میں نجوم بجھتے ہوئے کہہ رہے ہیں صبح بخیر مگر وہ پلکیں اور ان میں کہیں جڑا ہوا میں یہ دیکھنے کو کہ فطرت کہاں بدلتی ہے وہ روٹھنے ہی لگا ...

    مزید پڑھیے

    زمانہ ساتھ گزارا اکیلیاں نہ کھلیں

    زمانہ ساتھ گزارا اکیلیاں نہ کھلیں اداس ہونے سے پہلے سہیلیاں نہ کھلیں غموں کی دھوپ میں پھر بے نمک ہوئے چہرے نگاہ بجھ گئی رنگوں کی تھیلیاں نہ کھلیں لپٹ کے روئے امر بیل سے در و دیوار پلٹ کے آئے مسافر حویلیاں نہ کھلیں کتاب زیست کے سارے سوال بے معنی جواب الجھنے لگے اور پہیلیاں نہ ...

    مزید پڑھیے

    زمیں کھنکتی رہی اور گھٹا نے کچھ نہ کہا

    زمیں کھنکتی رہی اور گھٹا نے کچھ نہ کہا گلی تک آ کے بھی کالی بلا نے کچھ نہ کہا کہاں کہاں پہ درختوں کی چادریں اتریں لگی وہ چپ کہ برہنہ ہوا نے کچھ نہ کہا تمام شب پڑی جذبوں پہ اتنی اوس کہ بس تمام شب خلش دیر پا نے کچھ نہ کہا کہاں بجھے وہ دریچوں سے جھانکتے چہرے پلٹ کے آئی تو باد صبا نے ...

    مزید پڑھیے

    نہال عمر سے بے وقت جھڑنے والوں کو

    نہال عمر سے بے وقت جھڑنے والوں کو صبا وداع نہ کرنا بچھڑنے والوں کو اداسیاں بھی مقدس اگر تصرف ہو فراق اذن ہنر ہے اجڑنے والوں کو کہاں اتار گیا سیل رنگ کیا معلوم نئی رتوں میں جڑوں سے اکھڑنے والوں کو گھروں کی یاد دلاتی ہے کسمساتی ہوا دیار غیر میں اجرت پہ لڑنے والوں کو دعا کرو کہ ...

    مزید پڑھیے

    خنک ہوا میں بڑی شعلہ خیز خوشبو ہے

    خنک ہوا میں بڑی شعلہ خیز خوشبو ہے خیال یار چنبیلی کی تیز خوشبو ہے ہوا کے ہاتھ نہ لگ جائے موسموں سے کہو کہ ایک پھول کا سارا جہیز خوشبو ہے چرا گئے ہیں تری انگلیوں کا لوچ حروف عجیب خط ہے عجب عطر بیز خوشبو ہے پرانی یادوں سے صندوقچہ بھرا ہوا ہے سو خوب علم ہے کیوں زیر میز خوشبو ...

    مزید پڑھیے

    کھینچ لائے گی کوئی مصرعۂ تر آخر کار

    کھینچ لائے گی کوئی مصرعۂ تر آخر کار زلف زنجیر سے نازک ہے مگر آخر کار ہر دوراہے پہ کوئی یار بچھڑ جانا ہے کون ادا کرتا ہے تاوان سفر آخر کار کون خورشید کو پلٹائے کہ جنگل سے ادھر مورنی جھاڑ گئی جھیل میں پر آخر کار اڑ کے دیوار شفق سے یہ پرند مہتاب جانے کیا جھانکنے آیا مرے گھر آخر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2