لہر ٹوٹی ہے کہ آئنۂ مہتاب میں ہم
لہر ٹوٹی ہے کہ آئنۂ مہتاب میں ہم
چاند چمکا تو پڑے رہ گئے تالاب میں ہم
قوس کے رنگ چرا لائیں گے اور آئیں گے
پیرہن بننے کو فرصت سے ترے خواب میں ہم
کوئی بے نام ہوا فصل بدن کیوں کاٹے
لہلہاتے نہیں ہر خطۂ شاداب میں ہم
ساحلوں پر کھڑے لوگوں کی نظر سے دیکھو
ایک کشتی میں ہیں اور ایک ہی گرداب میں ہم
گاؤں کے اونچے درختوں کو بھلا کیا معلوم
شہر آئے ہیں جڑیں کاٹ کے سیلاب میں ہم
گھر سے خوشبو کے تعاقب میں نکل کر طالبؔ
روز آ جاتے ہیں اک حلقۂ احباب میں ہم