Tahira Jabeen

طاہرہ جبیں

طاہرہ جبیں کی غزل

    نغمۂ زیست گنگنائے کون

    نغمۂ زیست گنگنائے کون آگہی کا عذاب اٹھائے کون دونوں راضی تو ہیں صلح کے لیے پر انا ہے کہ پہلے آئے کون لاکھ دشمن نے مارنا چاہا جس کو رکھے خدا مٹائے کون جی میں آتا ہے اس سے بات کریں بات اپنی مگر بنائے کون اس نے وعدے تو بے شمار کیے اپنے وعدے مگر نبھائے کون دل کی بستی میں کوئی کیا ...

    مزید پڑھیے

    میں کیا مثال دوں کوئی تری مثال کے بعد

    میں کیا مثال دوں کوئی تری مثال کے بعد نہیں جمال کوئی بھی ترے جمال کے بعد عطا ہوئی وہ بلندی مرے تخیل کو خیال ہیچ ہوئے سب ترے خیال کے بعد یہ تیرے نام کا صدقہ ہے صاحب معراج عروج مجھ کو ملا ہے جو ہر زوال کے بعد بتایا حلیہ مبارک جو ام معبد نے حسیں لگا نہ کوئی ایسے خد و خال کے بعد نہ ...

    مزید پڑھیے

    جو بھی حق پر ہو وہی دار و رسن تک پہنچے

    جو بھی حق پر ہو وہی دار و رسن تک پہنچے آدمی آج کا یوں رسم کہن تک پہنچے بات ہو گل کی جہاں اس کے لبوں تک آئے ذکر جب سرو کا ہو اس کے بدن تک پہنچے میں نے ٹھانی ہے حفاظت میں کروں گی اس کی ہو جو ہمت تو خزاں میرے چمن تک پہنچے یہ بدن ڈھال بنا لوں گی ہوا کے آگے گرم جھونکا جو کوئی میرے وطن تک ...

    مزید پڑھیے

    جو سر پر ہے شجر میرا نہیں ہے

    جو سر پر ہے شجر میرا نہیں ہے مکیں ہوں اور گھر میرا نہیں ہے کسی کا ہے مگر میرا بھی ہے وہ جو میرا ہے مگر میرا نہیں ہے مقرر جس طرف منزل ہے میری اسی جانب سفر میرا نہیں ہے ہوں لب بستہ کہ تو مجرم نہ ٹھہرے میری جاں یہ مفر میرا نہیں ہے پکاروں کیا اسے گر ہے وہ میرا نہ لوٹے گا اگر میرا ...

    مزید پڑھیے

    اپنے حصے کی زمیں بھی چاہیے

    اپنے حصے کی زمیں بھی چاہیے دل مکاں کو اک مکیں بھی چاہیے لڑکے والوں کی طلب تو دیکھیے لڑکی افسر بھی حسیں بھی چاہیے اس کی باتیں یاد کرتے ہیں چلو شام غم کچھ دل نشیں بھی چاہیے اس کی ہر دم ہاں گھمنڈی کر گئی اس کے منہ سے اک نہیں بھی چاہیے دم کرائے کے مکانوں میں گھٹے گھر ہو کیسا بھی ...

    مزید پڑھیے

    کبھی اثر نہ مرے حرف مدعا میں رہا

    کبھی اثر نہ مرے حرف مدعا میں رہا نہ اختیار کوئی دست نارسا میں رہا نصیب دختر حوا جفا و جور و ستم شمار حسن و نزاکت میں اور وفا میں رہا امیر شہر کہ تھا زعم اقتدار میں گم غریب شہر سدا جبر ناروا میں رہا اتر گیا رگ و پے میں وہ زہر کی مانند مثال شہد جو اک شخص ابتدا میں رہا میں ہو سکی نہ ...

    مزید پڑھیے

    زندگی سے ہو مفر ممکن نہیں

    زندگی سے ہو مفر ممکن نہیں لاکھ چاہو تم مگر ممکن نہیں دوسروں کے واسطے سایہ تو ہے زیر سایہ ہو شجر ممکن نہیں زندگی میں ایسے وہ شامل ہوا اس کے بن اب یہ سفر ممکن نہیں آگہی ہو اور سکون قلب سے عمر ہو جائے بسر ممکن نہیں عشق سے دامن بچا کر ہی چلو جان سے جانا اگر ممکن نہیں راہ حق میں ...

    مزید پڑھیے