جو بھی حق پر ہو وہی دار و رسن تک پہنچے

جو بھی حق پر ہو وہی دار و رسن تک پہنچے
آدمی آج کا یوں رسم کہن تک پہنچے


بات ہو گل کی جہاں اس کے لبوں تک آئے
ذکر جب سرو کا ہو اس کے بدن تک پہنچے


میں نے ٹھانی ہے حفاظت میں کروں گی اس کی
ہو جو ہمت تو خزاں میرے چمن تک پہنچے


یہ بدن ڈھال بنا لوں گی ہوا کے آگے
گرم جھونکا جو کوئی میرے وطن تک پہنچے


اور بھی ہوں گے یہاں لاکھ سخن ور لیکن
کوئی تو ہو جو مری طرز سخن تک پہنچے