نغمۂ زیست گنگنائے کون
نغمۂ زیست گنگنائے کون
آگہی کا عذاب اٹھائے کون
دونوں راضی تو ہیں صلح کے لیے
پر انا ہے کہ پہلے آئے کون
لاکھ دشمن نے مارنا چاہا
جس کو رکھے خدا مٹائے کون
جی میں آتا ہے اس سے بات کریں
بات اپنی مگر بنائے کون
اس نے وعدے تو بے شمار کیے
اپنے وعدے مگر نبھائے کون
دل کی بستی میں کوئی کیا آئے
یہ جو اجڑے تو پھر بسائے کون
آنکھ میں کرچیاں ہیں پہلے ہی
خواب اب کے نئے سجائے کون
جو کسی کی دعا میں شامل ہو
ہاتھ اس کے لیے اٹھائے کون
جب تعلق ہی ترک کر بیٹھے
کون روٹھا کرے منائے کون
جو ہوئے ہیں جدا ارادے سے
ایسے بچھڑوں کو پھر ملائے کون
طاہرہؔ ان کہی ہی رہنے دو
دل کی باتیں تمہاری پائے کون