کبھی اثر نہ مرے حرف مدعا میں رہا
کبھی اثر نہ مرے حرف مدعا میں رہا
نہ اختیار کوئی دست نارسا میں رہا
نصیب دختر حوا جفا و جور و ستم
شمار حسن و نزاکت میں اور وفا میں رہا
امیر شہر کہ تھا زعم اقتدار میں گم
غریب شہر سدا جبر ناروا میں رہا
اتر گیا رگ و پے میں وہ زہر کی مانند
مثال شہد جو اک شخص ابتدا میں رہا
میں ہو سکی نہ کبھی اپنی ذات تک محدود
ہر ایک پھول چمن کا مری دعا میں رہا
میں وہ مریض ہوں جس کے لیے نہ کوئی اثر
کسی کے حرف تسلی میں اور دعا میں رہا
وہ مجھ کو دیکھ کے کرتا رہا ہے ان دیکھا
عجیب طرز تغافل بھی اعتنا میں رہا