نہ دیواریں ہیں اور نہ در پرانا

نہ دیواریں ہیں اور نہ در پرانا
ابھی تک پھر بھی ہے یہ گھر پرانا


ڈرا دیتا جگا دیتا ہے مجھ کو
درون ذہن بیٹھا ڈر پرانا


مراحل آخری تعلیم کے ہیں
مری ماں نے نکالا زر پرانا


تماشا پھر وہی امسال ہوگا
وہی دستار ہوگی سر پرانا


سجا ماتم کنار دشت مژگاں
سنا قصہ وہ چشم تر پرانا


اگر ہے دسترس دست سخاوت
ملا دے یار لمحہ بھر پرانا


اگر آ ہی گیا ہے وہ تو طاہرؔ
شکایت کر نہ شکوہ کر پرانا