مایوسی میں دل بیچارہ صدیوں سے
مایوسی میں دل بیچارہ صدیوں سے
ڈھونڈ رہا ہے ایک سہارا صدیوں سے
ایک ہی بات عبث دہرائے جاتا ہے
تن میں چلتا سانس کا آرا صدیوں سے
ہیرؔ اگرچہ میں نے اپنی پالی ہے
ڈھونڈ رہا ہوں تخت ہزارا صدیوں سے
تم سے کیسے سمٹے گا یہ لمحوں میں
دل اپنا ہے پارہ پارہ صدیوں سے
کس اعلان کو گونج رہا ہے نس نس میں
دھڑکن دھڑکن اک نقارا صدیوں سے
کوئے منزل عشق میں کوئی کام ملے
دل آوارہ ہے ناکارا صدیوں سے
دل پر کیا ہم نے تو جاناں جان پہ بھی
لکھ رکھا ہے نام تمہارا صدیوں سے
اس نے دل کے درد سے پوچھا کب سے ہو
دل سے اٹھ کے درد پکارا صدیوں سے
خشک پڑا ہے آنکھ کے پردے پر طاہرؔ
بحر درد کا ایک کنارا صدیوں سے