اسیر بحر و بر کوئی نہیں ہے

اسیر بحر و بر کوئی نہیں ہے
جہاں میں مختصر کوئی نہیں ہے


ہے دھڑکا سا مرے سینے میں لیکن
در امید پر کوئی نہیں ہے


مرا سایا سمٹ آیا ہے مجھ میں
مرا اب ہم سفر کوئی نہیں ہے


حوادث بھی وہیں ہم بھی وہیں ہیں
مگر اب چشم تر کوئی نہیں ہے


نظر ہی بام پر میری نہیں یا
نظر کے بام پر کوئی نہیں ہے


بجز میرے یہاں میری وفا کا
حوالہ معتبر کوئی نہیں ہے


سمجھ کر سوچ کر دل میں اترنا
یہاں باہر کو در کوئی نہیں ہے


خرد کے لاکھ قاصد ہیں تو ہوں گے
جنوں کا نامہ بر کوئی نہیں ہے


مجھے اپنانے والے لوگ طاہرؔ
بہت سے ہیں مگر کوئی نہیں ہے